ایک شخص نے اپنے بیوی کو تین طلاق دی ہیں، بیوی نے عدت بھی گزار ی ہے، اب عدت گزرنے کے بعد دوبارہ ڈرا دھمکا کرشوہرنےدوبارہ نکاح پڑھوایا ہے ، جب کہ طلاق ہوچکی ہے ،طلاق نامہ بھی موجود ہےاور گواہان بھی موجود ہیں، کیا دوبارہ اس طرح نکاح کرنا درست ہے، جب کہ عورت راضی نہیں ہے؟ اب نکاح کی کیا حیثیت ہے؟
صورتِ مسئولہ میں شوہر کا اپنی بیوی کو تین طلاق دینے کے بعد اسے ڈرا دھمکا کر دوبارہ نکاح میں لانا نا جائز اور حرام ہے، شوہر کو چاہیے کہ وہ اپنی مطلقہ بیوی سے علیحدگی اختیار کرے ۔
قرآن کریم میں ارشادباری تعالی ہے:
"الطَّلاَقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ ۔۔۔ فَإِن طَلَّقَهَا فَلاَ تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّىَ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ "(البقرة: (229.230
’’ وہ طلاق دو مرتبہ (کی )ہے ، پھر خواہ رکھ لینا قاعدے کے موافق، خواہ چھوڑدینا خوش عنوانی کے ساتھ ... پھر اگر کوئی (تیسری) طلاق دے دے عورت کو تو پھر وہ اس کے لئے حلال نہ رہے گی اس کے بعد یہاں تک کہ وہ اس کے سوا ایک اور خاوند کے ساتھ (عدت کے بعد) نکاح کرے۔‘‘ ) ترجمہ از بیان القرآن)
حدیث مبارک میں ہے:
"عن عائشة أن رجلا طلق امرأته ثلاثا فتزوجت فطلق فسئل النبي صلى الله عليه وسلم أتحل للأول قال: لا حتى يذوق عسيلتها كما ذاق الأول."
(صحيح البخاری ،كتاب الطلاق،باب من أجاز طلاق الثلاث، 2/ 300، ط:رحمانية)
ترجمہ: ’’ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں، عورت نے دوسری جگہ نکاح کیا اور دوسرے شوہر نے بھی طلاق دے دی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا یہ عورت پہلے شوہر کے لیے حلال ہوگئی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں! یہاں تک کہ دوسرا شوہر بھی اس کی لذت چکھ لے جیساکہ پہلے شوہر نے چکھی ہے۔‘‘
فتاوی عالمگیری میں ہے :
"وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية ولا فرق في ذلك بين كون المطلقة مدخولا بها أو غير مدخول بها كذا في فتح القدير ويشترط أن يكون الإيلاج موجبا للغسل وهو التقاء الختانين هكذا في العيني شرح الكنز."
(کتاب الطلاق، الباب السادس، فصل فیما تحل به الطلقة،1/ 473، ط: رشیدیة)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144601102425
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن