بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 جمادى الاخرى 1446ھ 08 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

ذہنی مریض کی طلاق کا حکم/ طلاق کے بعد چند مسائل کا شرعی حکم


سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں:

1۔کہ میرا شوہر گیارہ سال سے نفسیات کا مریض ہے، اور کافی عرصہ سے زیر علاج ہے، نیز میرا شوہر چرس کے نشے کا بھی عادی ہے ، ذہنی مرض کی کیفیت یہ ہے کہ کبھی مجھے ،بچے اور والدین تک کو گلے سے پکڑکر دباتا ہے اور بہت مارپیٹ کرتا ہے،2017 میں شوہر نے مجھے دو طلاقیں دی تھی کہ میں  طلاق دیتاہوں ،طلاق دیتاہوں،اب اس نے دوبارہ مجھے یہ الفاظ بولے کہ میں طلاق دیتاہوں، دیتاہوں، دیتاہوں،کیا مجھ پر طلاق واقع ہوگئی  ہے یا نہیں؟

2۔وہ زیور   جو شوہر نے  شادی کے  وقت گفٹ  دیا تھا اور  قبضہ بھی دیا تھا،  طلاق کے بعد  وہ کس کا ہوگا؟

3۔عدت کے دوران بیوی کا نفقہ کس پر ہوگا؟

4۔ میری ایک بیٹی کی  عمر چار سال ،دوسری بیٹی کی نوسال،اور بیٹے کی  ڈھائی سال ہے، ان کاخرچہ کس پر ہوگا،اور یہ بچے کس کے ساتھ رہیں گے میرے ساتھ یا شوہر کے ساتھ ؟

5۔گھر کا سامان میاں بیوی کی جدائی کے بعد کس کا ہوگا؟

 

تنقیح:

آپ کا شوہر نفسیات کا کس طرح مریض ہے؟ اور آپ کو کس حالت میں طلاق دی ؟اس وقت اس نے نشہ کیا تھا؟

جوابِ تنقیح:

جب ذہنی مرض میں مبتلا ہوجائے تو وہ ہر کسی کے ساتھ لڑتاہے اور بہت غصہ ہوتاہے یہاں تک کہ وہ اپنے آپ کو کنٹرول نہیں کرسکتا،گھر میں بھی لڑائی کرتاہے اور باہر بھی ،اور محلے والے  کہتے ہیں کہ ان کو چھوڑو یہ پاگل ہے۔ 

مجھے ذہنی مرض کی حالت میں طلاق دی،اس وقت اس نے نشہ نہیں کیاتھا۔

جواب

1۔ صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً آپ کا شوہر ذہنی مریض ہے اور اس کا ذہنی مریض ہونا معروف بھی ہے اور ڈاکٹر بھی اس کے ذہنی مریض ہونے کی تصدیق کرتے ہوں اور شوہر نے آپ کو ایسی حالت میں طلاق دی ہو کہ وہ جو کچھ کررہاتھا وہ اس کے اختیار میں نہیں تھا،اور وہ اپنے قابو میں نہیں تھا اور وہ جو کچھ کر رہا تھا اس کو قطعًا اس کا علم نہیں تھا تو اس حالت میں دی گئی طلاق شرعاً واقع نہیں ہوگی۔اور اگر طلاق دیتے وقت وہ بیماری کی کیفیت میں نہیں تھا تو اس صورت میں طلاق واقع ہوگئی ہے۔

2۔شادی کے موقع پر شوہر یا شوہر کے گھرانے کی طرف سے بیوی کو دیا گیا زیور اگر گفٹ کے طور پر دیا گیا تھاتو وہ طلاق کے بعد بیوی کا ہوگا۔

3۔اگر مطلقہ اپنے شوہر کے گھر عدت گزارے گی یا شوہر کی اجازت سے اپنے میکے میں عدت گزارے گی تو اس صورت میں عدت کا نفقہ شوہر پر واجب ہوگا اور اگر مطلقہ اپنی مرضی سے میکے میں عدت گزارے گی تو شوہر پر عدت کا نفقہ لازم نہیں ہوگا ۔

4۔میاں بیوی کے درمیان جدائی  واقع ہونے  کےبعد لڑکا سات سال کی عمر تک اور لڑکی نو سال کی عمر تک ماں کی پرورش میں رہے گی ،اس کے بعد باپ کو اپنے پاس رکھنے کا حق حاصل ہوگا، لہذا چارسال والی بیٹی نو سالہ ہونے  تک اور ڈھائی سال  والا بیٹا سات سالہ ہونےتک ماں کےپرورش میں رہیں گے ،اور   وہ بیٹی جس کی عمر نو سال ہے، اگر  والد اسے پرورش میں رکھنا چاہے تو رکھ سکتاہے ،باقی بچوں کا نفقہ باپ پر لازم ہے۔

 جہیز   میں جو کچھ بیوی لے کر آئی ہے  وہ بیوی کی ہی ملکیت ہے اور  جو  سامان شوہر نے لایا ہے، وہ شوہر کی ملکیت  ہے، البتہ جو چیزیں بطورِ تحفہ میاں بیوی یا ان دونوں کے رشتہ داروں نے دئیے  ہیں ان پر اسی کی ملکیت ہوتی ہے جس کو تحفۃً دیا گیا ہو، پس گھریلو سامان کی تقسیم اسی بنیاد پر ہوگی۔

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"المعتوه لا يقع طلاقه أيضا وهذا إذا كان في حالة العته أما في حالة الإفاقة فالصحيح أنه واقع هكذا في الجوهرة النيرة."

(کتاب الطلاق، الباب الأول، فصل فیمن یقع طلاقه، 1/ 353، ط: دارا لفکر)

الفقہ الإسلامی وأدلتہ میں ہے:

‌‌"طلاق المجنون والمدهوش: ولا يصح طلاق المجنون، ومثله المغمى عليه، والمدهوش: وهو الذي اعترته حال انفعال لا يدري فيها ما يقول أو يفعل، أو يصل به الانفعال إلى درجة يغلب معها الخلل في أقواله وأفعاله، بسبب فرط الخوف أو الحزن أو الغضب، لقوله صلى الله عليه وسلم: «لا طلاق في إغلاق»والإغلاق: كل ما يسد باب الإدراك والقصد والوعي، لجنون أو شدة غضب أو شدة حزن ونحوها.

‌‌طلاق الغضبان: يفهم مما ذكر أن طلاق الغضبان لا يقع إذا اشتد الغضب، بأن وصل إلى درجة لا يدري فيها ما يقول ويفعل ولا يقصده. أو وصل به الغضب إلى درجة يغلب عليه فيها الخلل والاضطراب في أقواله وأفعاله."

(القسم السادس، الباب الثانی، المبحث الثانی، طلاق المجنون،9/ 6883، ط: دار الفکر)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"لايثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية".

(الباب الثانی فیما یجوز من الھبة وما لایجوز، ج:4،ص:378،ط:دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"بخلاف جعلته باسمك فإنه ‌ليس ‌بهبة وكذا هي لك حلال إلا أن يكون قبله كلام يفيد الهبة خلاصة....

(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلا لملك الواهب لا مشغولا به)."

(‌‌كتاب الهبة، ج:5، ص:689/690، ط: دارالفکر)

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"المعتدة عن الطلاق تستحق النفقة والسكنى كان الطلاق رجعيا أو بائنا، أو ثلاثا حاملا كانت المرأة، أو لم تكن كذا في فتاوى قاضي خان."

(کتاب الطلاق، الباب السابع عشر، الفصل الثالث فی نفقة المعتدۃ، 1/ 557، ط: دارالفکر)

وفیه أیضاً:

"أحق الناس بحضانة الصغير حال قيام النكاح أو بعد الفرقة الأم إلا أن تكون مرتدة أو فاجرة غير مأمونة كذا في الكافي. سواء لحقت المرتدة بدار الحرب أم لا، فإن تابت فهي أحق به كذا في البحر الرائق. ولو تزوجت الأم بزوج آخر وتمسك الصغير معها أو الأم في بيت الراب فللأب أن يأخذها منها."

(کتاب الطلاق، الباب السادس عشر، 1/ 451، ط: دار الفکر)

وفیه أیضاً:

"والأم والجدة أحق بالغلام حتى يستغني وقدر بسبع سنين وقال القدوري حتى يأكل وحده ويشرب وحده ويستنجي وحده وقدره أبو بكر الرازي بتسع سنين والفتوى على الأول والأم والجدة أحق بالجارية حتى تحيض وفي نوادر هشام عن محمد - رحمه الله تعالى - إذا بلغت حد الشهوة فالأب أحق وهذا صحيح هكذا في التبيين."

(کتاب الطلاق، الباب السابع عشر، 1/ 452، ط: دار الفکر)

وفیه أیضاً:

"نفقة الأولاد الصغار على الأب لا يشاركه فيها أحد رجل معسر له ولد صغير إن كان الرجل يقدر على الكسب يجب عليه أن يكتسب وينفق على ولده كذا في فتاوى قاضي خان."

(کتاب الطلاق، الباب السابع عشر، 1/ 460، ط: دار الفکر)

وفیه أیضاً:

"الذكور من الأولاد إذا بلغوا حد الكسب، ولم يبلغوا في أنفسهم يدفعهم الأب إلى عمل ليكسبوا، أو يؤاجرهم وينفق عليهم من أجرتهم وكسبهم، وأما الإناث فليس للأب أن يؤاجرهن في عمل، أو خدمة كذا في الخلاصة .

ونفقة الإناث واجبة مطلقا على الآباء ما لم يتزوجن إذا لم يكن لهن مال كذا في الخلاصة ."

(کتاب الطلاق، الباب السابع عشر، الفصل الرابع، 1/ 563، ط: دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144601100906

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں