بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تین طلاق اور عدت میں نوکری کا حکم


سوال

میری طبیعت خراب ہونے اور پاؤں کے درد کی بنا پر پانچ چھ دن مزدوری کے لیے نہ جاسکا،تو میری بیوی مجھ سے نا راض ہو کر گھر سے چلی گئی اور اس کے والدین کے گھر چلی گئی،میں نے اس کو با ر بار بلایا، لیکن وہ گھر واپس نہیں آئی،پھر ایک دن میری سالی کے بلانے پر میری بیوی گھر واپس آگئی، مجھے اس کو دیکھ کر  بہت غصہ ہو گیا اور اس سے جھگڑا ہوا،جھگڑے کے دوران میں نے  اپنی بیوی کو "طلاق،طلاق،طلاق"تین بار بول دیا تھا،میں بہت غصہ میں تھا، تو میرے بزرگ نے مجھے یہاں اس سے متعلق شرعی حکم پوچھنے کے لیےمشورہ دیا،تو پوچھنا یہ ہے کہ طلاق واقع ہوگئی یا نہیں؟میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں ، مجھے شریعت کے مطابق رہنمائی فرمائیں، میری بیوی ابھی نوکری پہ بھی جاتی ہے، تو اب کیا کرنا  چاہیے؟ جواب عنایت فرمائیں! اب رجوع کی کوئی گنجائش ہے یہ بھی بتادیں!

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل نےجب بیوی کو غصہ کی حالت میں تین  مرتبہ طلاق دے دی تو شرعاً اس سے بیوی پر  تینوں طلاقیں واقع ہوگئیں، اور وہ  اپنے شوہر  پر حر متِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی  ہے،  نکاح ختم ہو چکا ہے، اب   رجوع یا  دوبارہ  نکاح کرنا جائز نہیں ہے،مطلقہ اپنی عدت (پوری تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو اور اگر حمل ہو تو بچے کی پیدائش تک)گزار کر دوسری جگہ  شرعاًنکاح کرسکتی ہے،البتہ عدت گزارنے کے بعدمطلقہ  اگر کسی دوسرے شخص سے نکاح کرے اور وہ اس سے صحبت (ہم بستری ) کرے اس کے بعد وہ دوسرا شخص اس کو طلاق دے دے یا وہ طلاق لے لے یا  اس کے شوہر کا انتقال ہو جائے تو اس کی عدت گزار کر عورت  اپنے سابقہ شوہر سے دوبارہ شرعاً  نکاح کر سکتی ہے۔

معتدّہ  کا دورانِ عدت بغیر کسی عذر شرعی  کے گھر سے نکلنا جائز نہیں ہے،عذر شرعی کی بنا پر (مثلاً سخت بیماری کی وجہ سے طبیب کے پاس جاناہو، یا گھر کے منہدم ہونے کا خطرہ ہو، یا کرایہ نہ ہونے کی صورت میں مکان خالی کرنا ہو،وغیرہ) نکلنے کی گنجائش ہے، لیکن رات بہرحال گھر میں آکر گزارے،  جب کہ عدتِ طلاق میں بیٹھی ہوئی عورت کو کسبِ  معاش  کے لیے نکلنے کی اجازت نہیں ہے؛ کیوں کہ مطلقہ  کا خرچہ عدت کے دوران شوہر کے ذمے  لازم ہے، البتہ  اگر مطلقہ کے  لیے بھی کوئی بندوبست نہیں ہے تو  وہ بھی کسبِ معاش کے  لیے ضرورت کے مطابق نکل سکتی ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(ويقع طلاق كل زوج بالغ عاقل) ولو تقديرا بدائع، ليدخل السكران (ولو عبدا أو مكرها) فإن طلاقه صحيح لا إقراره بالطلاق...(أو هازلا) لا يقصد حقيقة كلامه".

(3/235،  کتاب الطلاق، ط:سعید) 

و فیه أیضاً:

"(صريحه ما لم يستعمل إلا فيه) و لو بالفارسية (كطلقتك و أنت طالق و مطلقة) ... (و يقع بها) أي بهذه الألفاظ و ما بمعناها من الصريح ... (واحدة رجعية و إن نوى خلافها) من البائن أو أكثر خلافا للشافعي (أو لم ينو شيئًا)."

(3/250،کتاب الطلاق ، باب الصریح،ط:سعید)

 فتاوی عالمگیری میں ہے:

"و طلاق اللاعب و الهازل به واقع و كذلك لو أراد أن يتكلم بكلام فسبق لسانه بالطلاق فالطلاق واقع، كذا في المحيط."

(353/1،کتاب الطلاق،باب الصریح،ط:رشیدیه)

فتاوی شامی میں ہے:

"(و تعتدان) أي معتدة طلاق وموت (في بيت وجبت فيه) و لايخرجان منه (إلا أن تخرج أو يتهدم المنزل، أو تخاف) انهدامه، أو (تلف مالها، أو لا تجد كراء البيت) ونحو ذلك من الضرورات فتخرج لأقرب موضع إليه."

(كتاب الطلاق، ج:3، ص:536، ط:ايج ايم سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100434

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں