بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 جمادى الاخرى 1446ھ 14 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

تین طلاق اور بچوں کی کفالت


سوال

میری بیٹی کو اس کے شوہر نے دوبار  وائس میسج کے ذریعے تین مرتبہ  ان  الفاظ سے طلاق دی ہے،الفاظِ طلاق یہ ہیں:   "میں تمہیں طلاق دیتاہوں، طلاق دیتاہوں، طلاق دیتاہوں " اس کا شوہرعمان شہر مسقط میں رہتا ہے، شادی کے  ساڑھے سات   سال گزر چکے ہیں، دو بچے ہیں،ساڑھے چھ سال کی  بیٹی  اور پانچ سال کا بیٹا ہے، اس کے شوہر  نےکبھی اپنی بیوی بچوں کا خیال نہیں کیا،اس کے ماں باپ نے ہمیشہ اپنے بیٹے کا ساتھ دیا ،آئے دن وہ مارتاہے ،4مئی2024ء کو بھی بہت مارااور بچوں کے سامنے ہی گھر سے باہر نکال دیا،میری بیٹی نےایک عزیز کے گھرمیں ایک دن گزارا،وہاں سے اپنےشوہر کو بہت فون کیے کہ شاید غصہ ختم ہوگیاہو، تو مجھے آکر لے جاؤ ،مگر والدین کے اشارے پر وہ نہیں آیا، تو ہم نےاپنی بیٹی کی زندگی بچانے کی خاطر ٹکٹ بھیج کر پاکستان بلالیا،وہ لوگ انتہائی ظلم پر اترآئے ہیں اور صاف منع کیا ،محرم کی 10 تاریخ کویعنی 17 جولائی کی صبح بیٹی کو واٹس ایپ پر وائس میسج دیا کہ طلاق دے  رہاہوں اور تین بارطلاق کا لفظ استعمال کیا،معلوم یہ کرنا ہے کہ آیا اس طرح طلاق ہوجاتی ہے؟ ظلم یہ بھی ہے  کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ ہم ڈاکومنٹس نہیں بھیجیں گے،الزام لگارہے ہیں کہ تم سونا لےکر بھاگی ہو،جب کہ جو لوگ رسیوکر نے کےلیے آئے تھے،ان کے سامنے ہی صرف ایک جوڑے  میں آئی ہے،وہ کہہ رہے ہیں کہ نہ بچے دیں گے اورنہ ڈاکومنٹس(تحریر ی طور پر طلاق ) دیں گے ،برائے مہربانی  رہنمائی فرمائیں کہ بچوں کاحق کس کو ہوگا؟

نوٹ :(دونوں کا نکاح کراچی شہر میں ہواہے  ۔)

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کی بچی کو اس کے شوہرنےوائس میسج کے ذریعے جس وقت   تین طلاقیں دی ہیں ،اس وقت سے سائل کی بیٹی اپنے شوہر پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی ہے،دونوں کا نکاح ختم ہوگیاہے ، شوہر  کونہ رجوع کرنے کاحق حاصل ہےاور نہ دوبار ہ نکاح کرسکتاہے ،طلاق کے لیے شوہر کا  اب تحریری طلاق  کے ڈاکومنٹس اپنی بیوی کو بھیجناضروری نہیں ہے،اس کے بغیر بھی سائل کی بیٹی پر تین طلاقیں واقع ہوگئی ہیں ،لہذا سائل کی بیٹی عدت (اگر حمل ہے تو بچہ کی پیدائش تک اور اگر حمل نہیں ہے تو تین ماہواریاں )گزار کردوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے۔

  اولاد کی پرورش کرنے  کا حق سب سے پہلے ان کی ماں کو ہے ،بچے کی پرورش کا حق سات سال کی عمرتک اور بچی کی پرورش کا حق نوسال تک ماں کو حاصل ہے ،چاہے  والدہ کا نکاح برقرار ہویاختم  ہوگیاہو،لیکن اگرنکاح ختم ہوگیا ہوجیساکہ صورتِ مسئولہ میں سائل کی بیٹی کا نکاح ختم  ہوگیا ہے، توبھی بچوں کی پرورش کا حق ان کی ماں کوحاصل  ہے ،بشر ط یہ کہ بچوں کی ماں  کسی ایسے اجنبی آدمی سے نکاح نہ کرے جو بچوں کے حق میں نامحرم ہو ، وگرنہ ماں کا حق ساقط ہوجائے گا، پھر اس کے بعد  بچوں کی پرورش کا حق نانی کو،اس کے بعد دادی کو،اس کے بعد خالہ کو ،اس کے بعد پھوپھی کو (بالترتیب) حاصل ہوگا ۔

صورتِ  مسئولہ  میں سائل کی بیٹی چوں کہ ابھی عدت میں ہے ،اور عدت کے دوران اس پر لازم تھاکہ وہ اپنے شوہر کے گھر  پر عدت گزارتی ،گھر سے باہر نہ نکلتی ،لیکن شوہرنے  سائل کی بیٹی کو طلاق کے وقت ہی گھر سے باہرنکال دیا ہے،جس کی بنا پر وہ اپنے  شہر (کراچی)  آگئی ہے ،اب اگر سائل کی بیٹی یہاں(کراچی میں  )  رہ کر  بچوں کو پرورش کی خاطر عمان کے شہر مسقط سے اپنے شہر  کراچی(  جس میں دونوں کا نکاح ہواہے)لے آنے  کا مطالبہ کرتی ہے،تو اس کا یہ مطالبہ کرنا درست ہے  ،اسی طرح  عدت کے بعدبھی اگر سائل کی بیٹی  اپنے بچوں کوعمان کے شہر مسقط سےاپنے شہر کراچی(  جس میں دونوں کا نکاح ہواہے) لے آنے  کا مطالبہ کرتی ہے ،تو  بھی اس کا مطالبہ درست ہوگا  ،کیوں کہ  یہ اس کا حق ہے،اور یہ حق ِپرورش بیان کردہ مقررہ میعاد تک ہوگا، لیکن مذکورہ صورت میں شوہر کا پرورش کی عمر مکمل ہونے سے پہلے  بچوں کو اپنی تحویل میں لے کر یہ کہنا کہ بچے نہیں دیں گے،بیوی  اوربچوں کی حق تلفی ہے، جب پرورش کی عمر مکمل ہوجائے، تو  شوہر بچوں کو اپنی تحویل میں لے سکتا ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"وإن ‌كان ‌الطلاق ‌ثلاثا ‌في ‌الحرة ‌وثنتين ‌في ‌الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية."

(فصل فيما تحل به المطلقة وما يتصل به ، ج : 1 ، ص : 473 ، ط : دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"وذهب جمهور الصحابة والتابعين ومن بعدهم من أئمة المسلمين إلى أنه يقع ثلاث .....وقد ثبت النقل عن أكثرهم صريحا بإيقاع الثلاث."

(کتاب الطلاق، ج : 3 ، ص ، 233 ، ط : دارالفکر)

در مختار میں ہے :

"(ثم) أي بعد الأم بأن ماتت، أو لم تقبل أو أسقطت حقهاأو تزوجت بأجنبي (أم الأم) وإن علت عند عدم أهلية القربى (ثم أم الأب وإن علت) بالشرط المذكور وأما أم أبي الأم فتؤخر عن أم الأب بل عن الخالة أيضا بحر (ثم الأخت لأب وأم ثم لأم) لأن هذا الحق لقرابة الأم (ثم) الأخت (لأب) ثم بنت الأخت لأبوين ثم لأم ثم لأب (ثم الخالات كذلك) أي لأبوين، ثم لأم ثم لأب، ثم بنت الأخت لأب ثم بنات الأخ (ثم العمات كذلك) ثم خالة الأم كذلك، ثم خالة الأب كذلك ثم عمات الأمهات والآباء بهذا الترتيب؛ ثم العصبات بترتيب الإرث، فيقدم الأب ثم الجد ثم الأخ الشقيق، ثم لأب ثم بنوه كذلك، ثم العم ثم بنوه. وإذا اجتمعوا فالأورع ثم الأسن، اختيار."

(باب الحضانة ، ج : 3 ، ص  : 562،563 ، ط : دارالفکر)

فتاوی شامی میں ہے :

"والحاضنة) أما، أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء وقدر بسبع وبه يفتى لأنه الغالب. ولو اختلفا في سنه، فإن أكل وشرب ولبس واستنجى وحده دفع إليه ولو جبرا وإلا لا (والأم والجدة) لأم، أو لأب (أحق بها) بالصغيرة (حتى تحيض) أي تبلغ في ظاهر الرواية. ولو اختلفا في حيضها فالقول للأم بحر بحثا.وأقول: ينبغي أن يحكم سنها ويعمل بالغالب. وعند مالك، حتى يحتلم الغلام، وتتزوج الصغيرة ويدخل بها الزوج عيني (وغيرهما أحق بها حتى تشتهى) وقدر بتسع وبه يفتى...الدر.

وفي الفتح: ويجبر الأب على أخذ الولد بعد استغنائه عن الأم لأن نفقته وصيانته عليه بالإجماع اهـ. وفي شرح المجمع: وإذا استغنى الغلام عن الخدمة أجبر الأب، أو الوصي أو الولي على أخذه لأنه أقدر على تأديبه وتعليمه. وفي الخلاصة وغيرها: وإذا استغنى الغلام وبلغت الجارية فالعصبة أولى، يقدم الأقرب فالأقرب ولا حق لابن العم في حضانة الجارية."

(باب الحضانة ، ج :3 ، ص : 566 ، ط : دارالفکر)

تبیین الحقائق میں ہے:

"وفي نوادر هشام عن محمد إذا بلغت حد الشهوة فالأب أحق بها، وهذاصحيح لما ذكرنا من الحاجة إلى الصيانة، وبه يفتى في زماننا لكثرة الفساق، وإذا بلغت إحدى عشرة سنة فقد بلغت حد الشهوة في قولهم وقدره أبو الليث بتسع سنين، وعليه الفتوى."

(باب الحضانة ، ج : 3 ، ص : 49،50  ، ط : دار الكتاب الإسلامي)

وفیه ایضا:

"ولا تسافر مطلقة بولدها) لما فيه من الإضرار بالولد۔قال رحمه الله (إلا إلى وطنها، وقد نكحها ثم) لأنه التزم المقام فيه شرعا، وعرفا قال عليه الصلاة والسلام «من تأهل ببلدة فهو منهم»...وشرط في المختصر لجواز النقل شرطين أحدهما أن يكون وطنا لها، والثاني أن يكون التزوج واقعا فيهحتى لو وقع التزوج في بلد وليس بوطن لها ليس لها أن تنقله إليه، ولا إلى وطنها لعدم الأمرين في كل واحد منهما، وهو رواية كتاب الطلاق من الأصل، وفي الجامع الصغير أن لها النقل إلى مكان العقد لأن العقد متى وقع في مكان يوجب أحكامه فيه كما يوجب البيع التسليم في مكانه .ومن جملته حق إمساك الأولاد، والأول هو الأصح...، فحاصله أنه متى وجد الأمران في مكان واحد جاز لها النقل إليه كيفما كان إلا أن يكون دار الحرب فليس لها أن تنقله إليها لما فيه من الإضرار بالولد المسلم أو الذمي، وعن أبي يوسف أنه اعتبر موضع الولادة لا غير حتى كان لها النقل إلى موضع ولدته فيه لا إلى غيره وإن كان وطنا لها ووجد التزوج فيه رواها عنه الطحاوي - رحمه الله تعالى - هذا إذا كان بين الموضعين تفاوت،وإن تقاربا بحيث يتمكن من مطالعة ولده في يوم، ويرجع إلى أهله فيه قبل الليل جاز لها النقل إليه مطلقا في دار الإسلام، ولا يشترط فيه وقوع التزوج ولا الوطن إلا إلى قرية من مصر... وهذا الحكم في حق الأم خاصة، وليس لغيرها أن تنقله إلا بإذن الأب حتى الجدة."

(باب الحضانة ج : 3 ، ص :  50 ، ط: دار الكتاب الإسلامي)

درر الحكام شرح غرر الأحكام  میں ہے:

"(لا تسافر مطلقة بولدها) أي بدون إذن أبيه لما فيه من الإضرار بالولد (إلا إلى وطنها الذي نكحها فيه) حتى لو وقع التزوج في بلد وليس بوطن لها ليس لها أن تنقله إليه ولا إلى وطنها لعدم الأمرين في كل منهما وهو رواية كتاب الطلاق من الأصل وهو الأصح هذا إذا كان بين الموضعين تفاوت، وإن تقاربا بحيث يتمكن من مطالعة ولده في يوم ويرجع إلى أهله فيه قبل الليل جاز لها النقل إليه مطلقا في دار الإسلام ولا يشترط فيه وقوع التزوج ولا الوطن إلا إلى قرية من مصر لأن الانتقال إلى قريب بمنزلة الانتقال من محلة إلى محلة في بلدة واحدة لكن الانتقال من مصر إلى قرية يضر بالولد لأنه يتخلق بأخلاق أهل القرى فلا تملك ذلك إلا أن تكون وطنها ووقع العقد فيها في الأصح لما بينا (وخص هذا) السفر (بالأم) وليس لغيرها أن ينقله بلا إذن الأب حتى الجدة."

(باب النفقة ، ج : 1 ، ص:  412 ، دار إحياء الكتب العربية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144601101281

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں