بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 رجب 1446ھ 20 جنوری 2025 ء

دارالافتاء

 

تین طلاقوں اور بچوں کی کفالت کا حکم


سوال

میری بیٹی کو اس کے شوہر نے 23 جون 2024 ء کو  ان الفاظ کے ساتھ وائس میسج پر  تین طلاقیں دی:"میں تمہیں طلاق دیتاہوں،میں تمہیں طلاق دیتاہوں،میں تمہیں طلاق دیتاہوں،تم میری طرف سےآزادہو"اور ان ہی الفاظ کے ساتھ  میسج  لکھ کر بھی  تین طلاقیں دی ،پوچھنایہ ہےکہ طلاق ہوگئی ہے یا نہیں ؟

دو بچے بھی ہیں ، دوسال کی ایک بچی اور چھ ماہ کا ایک بچہ ہے ،پرورش کا حق کس کو ہے؟اور بچوں کا خرچہ کس کے ذمہ ہے؟ابھی بچہ ماں کے پاس ہے۔کیا ان کا والد ان سےملاقات  کرسکتاہے؟حالاں کہ ابھی تک بچوں کا نفقہ نہیں دیا ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب سائل کی بیٹی کو اس کے شوہرنےوائس میسج کے ذریعے  ان الفاظ سے تین طلاقیں دی ہیں کہ :"میں تمہیں طلاق دیتاہوں،میں تمہیں طلاق دیتاہوں،میں تمہیں طلاق دیتاہوں،تم میری طرف سےآزادہو"تو ان الفاظ کی ادائیگی سے سائل کی بیٹی پر تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں ، عورت (سائل کی بیٹی )اپنے شوہر پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی ہے،دونوں کا نکاح ختم ہوگیاہے ، شوہر  کونہ رجوع کرنے کاحق حاصل ہےاور نہ دوبار ہ نکاح کرسکتاہے ،لہذا سائل کی بیٹی عدت (اگر حمل ہے تو بچہ کی پیدائش تک اور اگر حمل نہیں ہے تو تین ماہواریاں )گزار کردوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی۔

جدائی کے بعد   اولاد کی پرورش  کا حق سب سے پہلے  ماں کو ہے ،بچے کی پرورش کا حق سات سال کی عمرتک اور بچی کی پرورش کا حق نوسال کی عمر ہونے تک ماں کو حاصل ہے ،بشر ط یہ کہ بچوں کی ماں  کسی ایسے اجنبی آدمی سے نکاح نہ کرے جو بچوں کے حق میں نامحرم ہو ، وگرنہ ماں کا حق ساقط ہوجائے گا۔پرورش کی عمر مکمل ہونے کے بعد والد بچوں کو اپنی تحویل میں لے سکتا ہے اور پرورش کی مدت میں بچوں کا  خرچہ بہرصورت بچوں کے والد کے ذمہ   لازم ہے ، والد بچوں کے اخراجات ادا کرنے کا شرعاً پابندہے ۔والد بچوں سے ملاقات کرسکتا ہے ،دونوں خاندانوں کو  باہمی رضامندی سے ملاقات کےلیے جگہ اور وقت متعین کردینا چاہیے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"وإن ‌كان ‌الطلاق ‌ثلاثا ‌في ‌الحرة ‌وثنتين ‌في ‌الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية."

(فصل فيما تحل به المطلقة وما يتصل به ، ج:1، ص:473، ط: دارالفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"وذهب جمهور الصحابة والتابعين ومن بعدهم من أئمة المسلمين إلى أنه يقع ثلاث .....وقد ثبت النقل عن أكثرهم صريحا بإيقاع الثلاث."

(کتاب الطلاق، ج :3، ص،233، ط:دارالفکر)

وفیہ ایضاً:

"(والحاضنة) أما، أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء وقدر بسبع وبه يفتى لأنه الغالب. ولو اختلفا في سنه، فإن أكل وشرب ولبس واستنجى وحده دفع إليه ولو جبرا وإلا لا (والأم والجدة) لأم، أو لأب (أحق بها) بالصغيرة (حتى تحيض) أي تبلغ في ظاهر الرواية. ولو اختلفا في حيضها فالقول للأم بحر بحثا. وأقول: ينبغي أن يحكم سنها ويعمل بالغالب. وعند مالك، حتى يحتلم الغلام، وتتزوج الصغيرة ويدخل بها الزوج عيني (وغيرهما أحق بها حتى تشتهى) وقدر بتسع وبه يفتى....الدر . وفي الفتح: ويجبر الأب على أخذ الولد بعد استغنائه عن الأم لأن نفقته وصيانته عليه بالإجماع اهـ. وفي شرح المجمع: وإذا استغنى الغلام عن الخدمة أجبر الأب، أو الوصي أو الولي على أخذه لأنه أقدر على تأديبه وتعليمه. اهـ. وفي الخلاصة وغيرها: وإذا استغنى الغلام وبلغت الجارية فالعصبة أولى، يقدم الأقرب فالأقرب ولا حق لابن العم في حضانة الجارية. "

(باب الحضانة ، ج:3، ص:566، ط:دارالفکر )

محيط برہانی میں  ہے :

"قال أصحابنا رحمهم الله، ولا تجبر الأم على إرضاع ولدها؛ لأن الإرضاع بمنزلة النفقة ونفقة الأولاد تجب على الآباء لا على الأمهات فكذا الإرضاع."

(‌‌الفصل الثالث في نفقة ذوي الأرحام، ج:3، ص:565، ط: دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144604100775

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں