بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تین طلاق ایک ہے یا نہیں؟


سوال

تین طلاق ایک ہےیا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ  قرآن کریم، احادیثِ مبارکہ، اقوالِ صحابہ کرام اور چاروں ائمہ کرام امامِ اعظم ابوحنیفہ امام مالک امام شافعی اور امام احمد رحمہم اللہ اور جمہور علماء کرام کے نزدیک تین طلاق تین ہی شمار ہوتی ہیں خواہ وہ الگ الگ دی گئی ہوں یا ایک ساتھ ایک ہی مجلس میں دی گئی ہو، صحیح بخاری میں ہے:

"5261 - حدثني ‌محمد بن بشار: حدثنا ‌يحيى، عن ‌عبيد الله قال: حدثني ‌القاسم بن محمد، عن ‌عائشة، «أن رجلا طلق امرأته ثلاثا، فتزوجت فطلق، فسئل النبي صلى الله عليه وسلم: ‌أتحل ‌للأول؟ قال: لا، حتى يذوق عسيلتها كما ذاق الأول.»".

(‌‌‌‌كتاب الطلاق، باب من أجاز طلاق الثلاث، 7/ 43،  ط:المطبعة الكبرى الأميرية)

ترجمہ:"حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں ، اُس عورت نے دوسرے شخص سے نکاح کر لیا ، دوسرے شخص نے بھی اس کو طلاق دے دی ، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ یہ عورت پہلے شخص کے لیے حلال ہوگئی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : نہیں!جب تک پہلے شوہر کی طرح دوسرا شوہر بھی اس کا ذائقہ نہ چکھ لے۔"

صحیح مسلم میں ہے:

"وكان عبد الله إذا سئل عن ذلك، قال لأحدهم: أما أنت طلقت امرأتك مرة أو مرتين. فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم أمرني بهذا. وإن كانت طلقتها ثلاثا فقد حرمت عليك حتى تنكح زوجا غيرك. وعصيت الله فيما أمرك من طلاق امرأتك".

(باب تحريم طلاق الحائض بغير رضاها، 2/ 1093 ت عبد الباقي)

ترجمہ:"  حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے جب کوئی شخص حیض کی حالت میں طلاق دینے سے متعلق معلوم کرتا، تو آپ اُس سے فرماتے کہ اگر تم نے اپنی بیوی کو ایک یا دو طلاقیں دی ہیں ، تو بیشک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صورت میں مجھے رجوع کا حکم دیا تھا اور اگر تم نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی ہیں ، تو یقینا وہ تم پر حرام ہوگئی ہے جب تک کہ وہ تمہارے علاوہ کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ کر لے اور اس طرح تم نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے کر اللہ کی نافرمانی کی ہے۔"

سننِ نسائی میں ہے:

"5564 - أخبرنا سليمان بن داود أبو ربيع، قال: أخبرنا ابن وهب، قال: أخبرني مخرمة، عن أبيه قال: سمعت محمود بن لبيد قال: أخبر رسول الله صلى الله عليه وسلم عن رجل، طلق امرأته ثلاث تطليقات جميعا، فقام غضبانا، ثم قال: «‌أيلعب ‌بكتاب ‌الله، وأنا بين أظهركم» حتى قام رجل فقال: يا رسول الله ألا أقتله؟".

(كتاب الطلاق،‌‌ طلاق الثلاث المجموعة وما فيه من التغليظ، 5/ 252، ط: مؤسسة الرسالة)

ترجمہ:"  حضرت محمود بن لبید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اطلاع ملی کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو اکھٹی تین طلاقیں دے دیں، آپ اس پر غصے میں اٹھ کھڑے ہوئے ، پھر آپ نے ارشاد فرمایا کہ کیا میری موجودگی میں اللہ تعالی کی کتاب سے کھیلا جارہا ہے ؟ حتی کہ ایک شخص کھڑا ہوا اور اُس نے کہا کہ حضرت !کیا اس شخص کو قتل کردوں؟ 

ہدایہ مع فتح القدیر میں ہے:

"(وطلاق البدعة أن يطلقها ثلاثا بكلمة واحدة أو ثلاثا في طهر واحد، فإذا فعل ذلك وقع الطلاق وكان عاصيا)"

 وفي الفتح:

"(قوله وطلاق البدعة) ما خالف قسمي السنة، وذلك بإن يطلقها ثلاثا بكلمة واحدة أو مفرقة في طهر واحد أو ثنتين كذلك أو واحدة في الحيض أو في طهر قد جامعها فيه أو جامعها في الحيض الذي يليه هو، فإذا فعل ذلك وقع الطلاق وكان عاصيا، وفي كل من وقوعه وعدده وكونه معصية خلاف...وذهب جمهور الصحابة والتابعين ومن بعدهم من أئمة المسلمين إلى أنه يقع ثلاثا. ومن الأدلة في ذلك ما في مصنف ابن أبي شيبة والدارقطني في حديث ابن عمر المتقدم «قلت: يا رسول الله أرأيت لو طلقها ثلاثا؟ قال: إذا قد عصيت ربك وبانت منك امرأتك".

(‌‌كتاب الطلاق، باب طلاق السنة، 3/ 468، ط: دار الفكر)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله - عز وجل - {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: 230] ، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة؛ لأ".

(كتاب الطلاق، فصل: وأما حكم الطلاق البائن، 3/ 187، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501100658

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں