میری شادی کو تقریباً35 سال ہوگئےہیں ،گھر میں کچھ اختلافات کی وجہ سے میں نے غصہ کی حالت میں اپنی بیوی کو ان الفاظ سے طلاق دے دی ،طلاق، طلاق ،طلاق ،طلاق ۔اور گھر چھوڑ کرچلا گیا،میرے بچے جوان ہیں،کچھ عرصہ بعد انہوں نے مجھے بلایااور کہا کہ ہم اہلِ حدیث مسلک سے تعلق رکھتے ہیں،ہمارے نزدیک طلاق نہیں ہوئی ہے،اس واقعہ کو تین سال کا عرصہ ہوچکا ہے،میں اس کے بعد سے اب تک بیوی کے پاس نہیں گیا ہوں ،پوچھنا یہ ہے کہ طلاق ہوئی ہے یا نہیں؟
صورتِ مسئولہ میں سائل نے تین سال قبل اپنی اہلیہ کو غصہ کی حالت میں جس وقت مذکورہ الفاظ ’’طلاق ،طلاق ،طلاق ،طلاق‘‘سے چار بارطلاقیں د ی ہیں ،تو تین طلاقیں سائل کی اہلیہ پر واقع ہوگئیں،جس کی وجہ سے سائل پر اپنی اہلیہ حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی ہے، سائل کےلیے نہ رجوع کرنا جائز ہے اور نہ تجدیدِِ نکاح کرنا جائز ہے ،سائل کی اہلیہ کا یہ کہنا کہ ہم اہلِ حدیث مسلک سے تعلق رکھتے ہیں،ہمارے نزدیک طلاق نہیں ہوئی ہے ،ان کی اس بات کا کوئی اعتبار نہیں ہے اس لیے کہ اہلِ حدیث کے علماء جو تین طلاقوں کے ایک طلاق ہونے کافتوی دیتے ہیں ،ان کا فتوی قرآن و سنت، جمہورصحابہ کرام ،تابعین،تبع تابعین ،محدثین ،ائمہ مجتہدین بشمول ائمہ اربعہ (امام مالک ،امام ابوحنیفہ ،امام شافعی اور امام احمد رحمہم اللہ ) کے متفقہ فتوی کے خلاف ہے، جس پر عمل کرنا جائز نہیں ہے۔
قرآن کریم میں ارشادباری تعالی ہے:
"الطَّلاَقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ ۔۔۔ فَإِن طَلَّقَهَا فَلاَ تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّى تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ ."(البقرة :(229 ، 230
’’ وہ طلاق دو مرتبہ (کی )ہے ، پھر خواہ رکھ لینا قاعدے کے موافق، خواہ چھوڑدینا خوش عنوانی کے ساتھ ... پھر اگر کوئی (تیسری) طلاق دے دے عورت کو تو پھر وہ اس کے لئے حلال نہ رہے گی اس کے بعد یہاں تک کہ وہ اس کے سوا ایک اور خاوند کے ساتھ (عدت کے بعد) نکاح کرے۔ ‘‘ ) ترجمہ از بیان القرآن)
حدیث مبارک میں ہے:
’’عن عائشة أن رجلا طلق امرأته ثلاثا فتزوجت فطلق فسئل النبي صلى الله عليه وسلم أتحل للأول قال: لا حتى يذوق عسيلتها كما ذاق الأول."
(صحيح البخاری ، كتاب الطلاق ، باب من أجاز طلاق الثلاث ، ج : 2 ، ص : 300 ، ط : رحمانية)
ترجمہ: ’’ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں، عورت نے دوسری جگہ نکاح کیا اور دوسرے شوہر نے بھی طلاق دے دی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا یہ عورت پہلے شوہر کے لیے حلال ہوگئی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں! یہاں تک کہ دوسرا شوہر بھی اس کی لذت چکھ لے جیساکہ پہلے شوہر نے چکھی ہے۔‘‘
فتاوی شامی میں ہے :
"وذهب جمهور الصحابة والتابعين ومن بعدهم من أئمة المسلمين إلى أنه يقع ثلاث.
قال في الفتح بعد سوق الأحاديث الدالة عليه: وهذا يعارض ما تقدم، وأما إمضاء عمر الثلاث عليهم مع عدم مخالفة الصحابة له وعلمه بأنها كانت واحدة فلا يمكن إلا وقد اطلعوا في الزمان المتأخر على وجود ناسخ أو لعلمهم بانتهاء الحكم لذلك لعلمهم بإناطته بمعان علموا انتفاءها في الزمن المتأخر وقول بعض الحنابلة: توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم عن مائة ألف عين رأته فهل صح لكم عنهم أو عن عشر عشر عشرهم القول بوقوع الثلاث باطل؟ أما أولا فإجماعهم ظاهر لأنه لم ينقل عن أحد منهم أنه خالف عمر حين أمضى الثلاث، ولا يلزم في نقل الحكم الإجماعي عن مائة ألف تسمية كل في مجلد كبير لحكم واحد على أنه إجماع سكوتي.
وأما ثانيا فالعبرة في نقل الإجماع نقل ما عن المجتهدين والمائة ألف لا يبلغ عدة المجتهدين الفقهاء منهم أكثر من عشرين كالخلفاء والعبادلة وزيد بن ثابت ومعاذ بن جبل وأنس وأبي هريرة، والباقون يرجعون إليهم ويستفتون منهم وقد ثبت النقل عن أكثرهم صريحا بإيقاع الثلاث ولم يظهر لهم مخالف - {فماذا بعد الحق إلا الضلال} [يونس: 32]- وعن هذا قلنا لو حكم حاكم بأنها واحدة لم ينفذ حكمه لأنه لا يسوغ الاجتهاد فيه فهو خلاف لا اختلاف ."
(كتاب الطلاق ، ركن الطلاق ، ج : 3 ، ص : 233 ، ط : سعيد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144604102620
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن