بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حاملہ بیوی کو تین طلاق دینا


سوال

میں نے انتہائی  غصہ کی حالت میں بیوی کو ان الفاظ کے ساتھ تین مرتبہ طلاق دی کہ ’’میں تجھے طلاق دیتا ہوں ‘‘ اس وقت میری بیوی کو حمل ٹھہرا ہوا تھا۔میرا طلاق کا کوئی ارادہ نہیں تھاتو کیا شرعی اعتبار سے طلاق واقع ہوچکی ہے؟

جواب

واضح رہے لفظ ’’طلاق ‘‘صریح لفظ ہے ،اس میں نیت کی ضرورت نہیں ہوتی ،اگر کوئی شخص بلانیت و ارادہ بھی اپنی بیوی کو یہ الفاظ کہ  دے تو اس سے طلاق واقع ہوجاتی ہے،اسی طرح حالت حمل میں طلاق دینے سے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے ۔

لہذ ا صورت مسئولہ میں جب سائل نے اپنی بیوی کو ان الفاظ کے ساتھ تین مرتبہ طلاق دی کہ ’’میں تجھے طلاق دیتاہوں ‘‘ تو ان الفاظ سے سائل کی بیوی پر تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں ، نکاح ختم ہوچکا ہے، دونوں میاں بیوی ایک دوسرے پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوچکے ہیں، اب دوبارہ نکاح کی گنجائش بھی باقی نہیں رہی۔

قرآن مجید میں ہے:

" الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ ... فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ."

[البقرة: 229، 230]

فتاوى ہندیہ میں ہے:

"وإن كان الطلاق ثلاثًا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجًا غيره نكاحًا صحيحًا."

(کتاب الطلاق، كتاب الطلاق، الباب السادس، 1 /473 ،ط : دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411102244

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں