بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

تین طلاق


سوال

ایک شخص نے نشہ کی حالت میں بیٹے اور بیٹی کے سامنے اپنی بیوی کو ایک طلاق دی،لیکن اس شخص کو یہ طلاق یاد نہیں ہے، پھر دوسری بار نشہ کے بغیر ایک طلاق دی اس کے بھی گواہ موجود ہیں، اب اس شخص نے تیسری بار چند افراد کے سامنے دو طلاقیں دی ہیں۔

طلاق میں صریح الفاظ استعمال کیے تھے۔دونوں مرتبہ طلاق دینے کے بعد دونوں میاں بیوی کی طرح ساتھ رہتے رہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً مذکورہ شخص نے نشہ کی حالت میں اپنی بیوی کو ایک صریح طلاق دی تھی تو اس سے  بیوی پر ایک  طلاقِ رجعی   واقع ہوگئی تھی، اس کے بعد دونوں کےمیاں بیوی کی طرح ایک ساتھ رہنے سے رجوع ہو گیا اور دونوں کا نکاح بھی قائم رہا، اس کے بعد اس شخص کے پاس دو طلاقوں کا اختیار باقی تھا،پھر اگر اس نے دوسری  بار ایک  اورصریح طلاق دی تھی  تو اس سے بیوی پر دوسری طلاقِ رجعی  بھی واقع ہو گئی  تھی ،اس کے بعد ساتھ رہنے سےدوبارہ رجوع ہو گیا اور پھر اس کے پاس صرف ایک طلاق کا اختیار باقی تھا۔

پھر اگر تیسری بار اس نے دو طلاقیں دیں ہیں تو بیوی پر مجموعی طور پر تین طلاقیں واقع ہو گئیں  اور  چوتھی طلاق لغو ہوئی اور تین طلاقوں کے بعد  اس کی بیوی  اس پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی ہے، اب رجوع کی گنجائش نہیں ہے اور دوبارہ نکاح بھی نہیں  ہو سکتا، مطلقہ عدت ( پوری تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو اور اگر حمل ہو تو بچے کی پیدائش تک) گزارنے کے بعد دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہو گی ۔

بدائع الصنائع فی ترتيب الشرائع میں ہے:

"وأما السكران إذا طلق امرأته فإن كان سكره بسبب محظور بأن شرب الخمر أو النبيذ طوعا حتى سكر وزال عقله فطلاقه واقع عند عامة العلماء وعامة الصحابة - رضي الله عنهم -"

(كتاب الطلاق،فصل:وأما شرائط الركن 3/ 99، ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله - عز وجل - {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: ٢٣٠]...وإنما تنتهي الحرمة وتحل للزوج الأول بشرائط منها النكاح...ومنها الدخول من الزوج الثاني، فلا تحل لزوجها الأول بالنكاح الثاني حتى يدخل بها، وهذا قول عامة العلماء."

(کتاب الطلاق ،فصل : وأماحکم الطلاق البائن،3 /189-187)

وفیہ ایضاً:

"وأما ركن الرجعة فهو قول أو فعل يدل على الرجعة... وأما الفعل الدال على الرجعة فهو أن يجامعها أو يمس شيئا من أعضائها لشهوة أو ينظر إلى فرجها عن شهوة أو يوجد شيء من ذلك."

(کتاب الطلاق،فصل:وأما بيان حكم الطلاق3/ 183)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144304100808

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں