بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

تین طلاق کے بعد ساتھ رہنا، اوراس ناجائز رہنے سے پیداشدہ لڑکی کے نکاح میں شریک ہونے کا حکم


سوال

ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں، اورتین طلاق دینے کے بعد  اس نے اس عورت کو اپنے ساتھ رکھ لیا، اور پھر اس کی اس سے  ایک بیٹی پیدا ہوگئی،اب اس لڑکی سے نکاح کرنا کیسا ہے؟ اور وہ لڑکی طلاق کے بعد پیدا ہوئی تھی، ہمارے ہاں لوگ کہتے ہیں کہ جو بچہ بغیر نکاح کے پیدا  ہو جائے اس کے نکاح میں جانے والے سارے لوگوں کا نکاح ٹوٹ جاتا ہے، کیا یہ بات سچ ہے؟ ۔

وضاحت:

(1 )اس بندے نے نے تقریبًا کوئی دس بارہ بندوں کے سامنے اپنے سسر کو کہا تھا کہ میں تمہاری بیٹی کو طلاق دیتا ہو ں،یہ الفاظ تین سے زیادہ بار دہرائے تھے، (2) وہ لڑکی طلاق کے  تقریبًا دو تین سال بعد پیدا ہوئی ،(3) جو لڑکا اس سے شادی کرنا چاہتا ہے اس کا اس لڑکی سے کوئی رشتہ نہیں ہے، ہمارے ہاں لوگ یہی کہتے ہیں کہ جو بندہ اس لڑکی کے نکاح میں شریک ہو گا اس کا نکاح ٹوٹ جائے گا۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعتًا مذکورہ شخص نے اپنی بیوی کو  گواہوں کی موجودگی میں تین طلاقیں دی تھیں ، اور اس کے بعد   تحلیل شرعی  کے بغیر بیوی کو اپنے پاس رکھا ہے ، (یعنی مطلقہ نے عدت گزرنے کے بعد دوسری جگہ نکاحِ صحیح  کرکے،  دوسرے شوہر سے صحبت کرکے،  اس سے طلاق ہونے کے بعد  عدت گزار کر پہلے شوہر سے نکاح نہیں کیا تھا) تو مذکورہ شخص کا یہ عمل حرام  تھا ،  اور اس سے ہم بستری کرنا زنا ہے،   اگر مذکورہ لڑکی  طلاق کے دوسال  کے بعد پیدا ہوئی ہے، اور مذکورہ شخص اس کی نسب کا دعوی بھی نہیں کرتا تو اس صورت میں مذکورہ لڑکی  غیرثابت النسب ہوگی ،    بہر حال مذکورہ واقعہ کے بعد پیداہونے والی لڑکی سے نکاح کرنے ،یا اس کی نکاح میں شریک ہونے پر  شرعاً کوئی ممانعت نہیں ،لہذا سائل کے ہاں مشہور رواج (کہ اس لڑکی کے نکاح میں جانے والوں کا نکاح ٹوٹ جاتا ہے )شرعاًدرست نہیں ۔

تفسیرابنِ کثیرمیں ہے:

"وقوله تعالى :(فَإِنْ طَلَّقَها فَلا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجاً غَيْرَهُ) أي أنه إذا طلق الرجل امرأته طلقة ثالثة بعد ما أرسل عليها الطلاق مرتين، فإنها تحرم عليه حتى تنكح زوجا غيره، أي حتى يطأها زوج آخر في نكاح صحيح، فلو وطئها واطئ في غير نكاح ولو في ملك اليمين، لم تحل للأول، لأنه ليس بزوج."

(سورۃ البقرۃ ،آیت:230،ج:1،ص:469،ط:دارالکتب  العلمیۃ)

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"وموجب الطلاق في الشريعة رفع الحل الذي به صارت المرأة محلا للنكاح إذا تم العدد ثلاثا كما قال الله تعالى {فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: 230] ويوجب ‌زوال ‌الملك باعتبار سقوط اليد عند انقضاء العدة في المدخول بها وانعدام العدة عند عدم الدخول والاعتياض عند الخلع."

(کتاب الطلاق، ج:6،ص:2،ط:دار المعرفة - بيروت)

النہر الفائق شرح کنز الدقائق میں ہے:

"وهو رفع القيد الثابت شرعًا بالنكاح۔۔۔وحكمه زوال الملك عن المحل موجبة لانقضاء العدة في الرجعي وبدونه في البائن وزوال حل المناكفة في الثلاث وهذا معنى قوله في (الجوهرة): الطلاق عنده م لا يزيل الملك وإنما يحصل زوال الملك عقابه إذا كان طلاقا قبل الدخول أو بائنا وإن كان رجعيا وقف على انقضاء العدة وسياسي ألفاظه مبينة."

(کتاب الطلاق، ج:2،ص:309/ 310/ 311،ط:دار الكتب العلمية)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ولو طلقها بعد الدخول، ثم جاءت بولد يثبت النسب إلى سنتين وتنقضي العدة به ولو جاءت به لأكثر من سنتين إن كان الطلاق رجعيا يثبت النسب ويصير مراجعا لها، وإن كان الطلاق بائنا لا يثبت النسب ما لم يدع الزوج،فإذا ادعى الزوج يثبت منه۔۔۔"وإن طلقها ثنتين حتى حرمت عليه حرمة غليظة يثبت النسب إلى سنتين من وقت الطلاق۔۔۔ملخصاً."

کتاب الطلاق،الباب الخامس عشر فی ثبوت النسب،ج:1،ص:537/ 539 ط:المطبعة الكبرى الأميرية )

وفیہ ایضاً:

"ولو طلقها ثلاثا، ثم تزوجها قبل أن تنكح زوجا غيره فجاءت منه بولد ولا يعلمان بفساد النكاح فالنسب ثابت، وإن كانا يعلمان بفساد النكاح يثبت النسب أيضا عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - كذا في التتارخانية ناقلا عن تجنيس."

کتاب الطلاق،الباب الخامس عشر فی ثبوت النسب،ج:1،ص:540ط:المطبعة الكبرى الأميرية )

تفسیر بغوی میں ہے:

"قوله تعال: {وأحل لكم ما وراء ذلكم} قرأ أبو جعفر وحمزة والكسائي وحفص "أحل " بضم الأول وكسر الحاء، لقوله {حرمت عليكم} وقرأ الآخرون بالنصب، أي: أحل الله لكم ما وراء ذلكم، أي: ما سوى ذلكم الذي ذكرت من المحرمات، {أن تبتغوا} تطلبوا، {بأموالكم} أي تنكحوا بصداق أو تشتروا بثمن، {محصنين} أي: متزوجين أو متعففين، {غير مسافحين} أي: غير زانين، مأخوذ من سفح الماء وصبه وهو المني، {فما استمتعتم به منهن} اختلفوا في معناه، فقال الحسن ومجاهد: أراد ما انتفعتم وتلذذتم بالجماع من النساء بالنكاح الصحيح، {فآتوهن أجورهن} أي: مهورهن."

(سورۃ النساء ،آیت نمبر :24،ج:2،ص:193،ط:دار طيبة للنشر والتوزيع)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311101132

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں