بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تین طلاق کا حکم


سوال

میری شادی آج سے 5 سال پہلے ہوئی تھی ، شادی کے ایک سال بعد بیٹی ہوئی ، ان پانچ سالوں میں میرے شوہر نے کہیں بھی ایک مہینے سے زیادہ کام نہیں کیا ، اکثر اوقات میرے والد صاحب کہیں نہ کہیں کام لگواکر دے دیتے تھے اور ہمیشہ میرے گھر کا خرچہ والد صاحب اٹھاتے تھے، ابھی پچھلے سال 5 دسمبر 2022 ء کو میرے والد صاحب کا انتقال ہوا تو اس کے بعد بھی اس نے کوئی جاب نہیں کی۔ ابھی 4 مئی 2023ء جمعرات کو میں سورہی تھی ، دوپہر کا وقت تھا ، بلاوجہ مجھ سے لڑنے لگا ، مارنا پیٹنا شروع کردیا ، میری بیٹی کو بھی مارا ، جب میں  نے پوچھا کہ کیوں لڑرہے ہوں  ؟ تو کہنے لگا ماروں گا تو جان چھوٹے گی ، تم اپنی امی کو فون کر و کہ آکر تمہیں لے جائیں ، میں نے کہا میں امی کو نہیں بلاؤں گی اور نہ ہی فون کروں گی،پھر اس نے کہا: "میں اپنے شرعی حق سے تمہیں طلاق دیتا ہوں"  اور یہ الفاظ اس نے تین مرتبہ دہراۓ ، اس دوران کمرے  میں اور میرا شوہر تھا ، ہمارے علاوہ کوئی اور نہیں تھا ، پھر میں نے امی کو فون کیا اور امی کے گھر آگئی ، مجھے حمل تھا یہاں آئی تو میری طبعیت خراب ہوگئی ، جب چیک اپ کروایا تو حمل ختم ہوگیا تھا ۔

اب سوال یہ ہے کہ میں حاملہ تھی تو اس صورت میں میرے اوپر   کتنی طلاقیں واقع  ہوئیں اور عدت کا کیا حکم ہے؟ 

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائلہ کے شوہر  نے سائلہ کو لڑائی جھگڑے کے دوران جب مذکورہ الفاظ " میں اپنے شرعی حق سے تمہیں طلاق دیتا ہوں"تین دفعہ کہے، تو اس وقت اگرچہ بیوی حاملہ تھی تب بھی   سائلہ پر  تینوں طلاقیں واقع ہوگئی  ہیں ،میاں بیوی دنوں کا نکاح کا ختم ہوچکا ہے ، سائلہ  شوہر پر  حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی ہے،  اب دونوں کا دوبارہ نکاح بھی جائز نہیں ہے۔

اور مطلقہ   چوں کہ حاملہ تھی، اس لیے اس کی عدت وضع ِ حمل تھی ،حمل ضائع ہونے کی صورت میں عدت کی تفصیل یہ ہے کہ  اگر بچے کے اعضاء میں سے کسی عضو (مثلاً: ہاتھ، پیر ،انگلی یا ناخن وغیرہ) کی بناوٹ ظاہر ہوچکی ہو تواس حمل کو  ساقط کرنے  کے بعد  عدت گزر جاۓ  گی، لیکن  اگر بچے کے اعضاء  میں سے کسی بھی عضو کی بناوٹ ظاہر نہ ہوئی ہو تو پھر اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے، یعنی  اس حمل کے ضائع ہونے  سے  عدت کے گزرنے کا حکم نہیں لگایا جاۓ گا ۔

بچے کے  اعضاء کی بناوٹ ظاہر ہونے کی مدت فقہاء نے چار مہینے  لکھی ہے، لہٰذا جو حمل چار مہینے پورے ہونے  پر یا چار مہینے کے بعد ضائع ہو جاۓ ، اس کے بعد تو عدت گزرجانے کا حکم لگے  گا، لیکن اگر حمل چار مہینے مکمل ہونے سے پہلے پہلے   ضائع ہوگیا  ہے  تو اس حمل کے ضائع ہونے  سے  عورت کی عدت نہیں گزرے گی ، بلکہ اسے طلاق کی  عدت ( تین ماہورایاِِں)گزارنی ہوگی اور  عدت گزانے کے بعد   سائلہ    دوسری جگہ     نکاح کرنے میں آزاد ہوگی  ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"و البدعي ثلاث متفرقة ۔۔۔ قوله: ثلاث متفرقة وکذا بکلمة واحدۃ بالاولي ۔۔۔ الي قوله: و ذهب جمھور الصحابة و التابعین و من بعدهم من ائمة المسلمین الي انه یقع ثلاث."

(کتاب الطلاق، ج: 3، ص: 232، 233، ط: سعید)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وإن کان الطلاق ثلاثاً في الحرة وثنتین في الأمة لم تحل له حتی تنکح زوجًا غیره نکاحًا صحیحًا ویدخل بها، ثم یطلقها أو یموت عنها."

( کتاب الطلاق، الباب السادس في الرجعة وفيما تحل به المطلقة...، فصل فيما تحل به المطلقة...، ج: 1، ص: 473، ط: رشدیه)

وفیہ ایضاً:

"(قوله وطلاق الحامل يجوز عقيب الجماع؛ لأنه لا يؤدي إلى اشتباه وجه العدة) إن اعتبر حاظرا؛ ولأنه زمان الرغبة في الوطء لكونه غير معلق؛ لأنه اتفق أنها قد حبلت أحبه أو سخطه فبقي آمنا من غيره فيرغب فيه لذلك، أو لمكان ولده منها؛ لأنه يتقوى به الولد فيقصد به نفعه."

(کتاب الطلاق، باب طلاق السنة، ج: 3، ص: 478، ط: دارالفکر)

مبسوط سرخسی میں ہے :

"أن ‌من ‌أقر ‌بطلاق سابق يكون ذلك إيقاعا منه في الحال؛ لأن من ضرورة الاستناد الوقوع في الحال، وهو مالك للإيقاع غير مالك للإسناد."

(كتاب الطلاق، باب من الطلاق، ج: 6، ص: 133، ط: دارالمعرفة)

بدائع الصنائع میں ہے :

"وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله - عز وجل - {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره}، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة."

( كتاب الطلاق، فصل في حكم الطلاق البائن، ج: 3، ص: 187، ط: سعيد)

فتاوی عالمگیری میں ہے :

"وعدة الحامل أن تضع حملها كذا في الكافي. سواء كانت حاملا وقت وجوب العدة أو حبلت بعد الوجوب كذا في فتاوى قاضي خان."

( كتاب الطلاق، الباب الثالث عشر في العدة، ج: 1، ص: 528، ط: دارالفكر)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144412100360

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں