بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تین پتھر رکھ کر چلی جانے کو کہا اور نیت طلاق کی تھی


سوال

میں نے دو سال پہلے کسی وجہ سے اپنی بیگم کے ہاتھ میں تین پتھر رکھ کر گھر سے چلی جانے کو کہا اور نیت طلاق کی کی تھی ،اس کے بعد اس پر جرگہ ہوا ،اس میں یہ بات طے ہوئی کہ اگر یہ عورت والد کے گھر رہتی ہے تو آپ کو اس سے کچھ لینا دینا نہیں ہوگا ،اور اگر یہ عورت دوسری جگہ شادی کرنا چاہتی ہے تو آپ کو اسے طلاق دینی ہوگی ،کیونکہ طلاق پر کوئی گواہ نہیں ہیں اور آپ کو طلاق کے بدلے میں 40000 روپے ملیں گے،میں نے جرگہ میں کہا کہ مجھے پتہ نہیں کہ میں اچھا یا برا کر رہا ہوں ،دو سال بعد مکمل چھان بین کے بعد چار گواہوں کے سامنے یہ بات ثابت ہوئی کہ دشمن کی طرف  سےمجھ پر جادو تھا ،آپ مجھے بتائیں کہ کتنی طلاقیں واقع ہوئیں ہیں ،اگر میں ان دشمنوں کی طرف جاؤں تو خون خرابہ بھی ہو سکتا ہے ،اس لیے میں اپنے تین بچے اپنی والدہ کے حوالہ کر سکتا ہوں یا نہیں ؟

جواب

1)صورت مسئولہ میں جب سائل نے اپنی بیوی کے ہاتھ میں تین پتھر رکھ کر چلی جانے کو کہا اور سائل کی نیت اس سے طلاق کی تھی تو اس سےسائل کی بیوی پر ایک طلاق بائن واقع ہو گئی  تھی، نکاح ختم ہو چکا تھا،عدت کے بعد مطلقہ دوسری جگہ نکاح کرنے میں آ زاد ہے ،البتہ اگر میاں بیوی دوبارہ  ساتھ رہنے پر  رضامند ہیں تو نئے مہر اور  ایجاب و قبول کے ساتھ دو گواہوں کی موجودگی میں  تجدید نکاح کر سکتے ہیں ،اس صورت میں سائل کو دو طلاقوں کا اختیار ہوگا ۔طلاق دیتے وقت سائل کی ظاہری حالت درست تھی اور اسے طلاق دیتے وقت پورا احساس تھا کہ میں طلاق دے رہا ہوں اور اسی نیت سے اس نے الفاظ استعمال کیے تو طلاق کے وقوع کے لیے اتنا کافی ہے،جادو وغیرہ کے اثرات کی وجہ سے طلاق کے وقوع پر فرق نہیں پڑے گا۔

2)جدائی کی صورت میں سات سال کی عمر تک لڑکے اور نو سال کی عمر تک لڑکی کی پرورش کا حق  بچوں کی ماں کو حاصل ہے بشرطیکہ اس دوران ماں بچوں کے غیر محرم سے نکاح نہ کرے نیز اس دوران بچوں کا خرچہ انکے باپ پر لازم ہےاس کے بعدبلوغ تک لڑکے کی اور شادی تک  لڑکی کی  پرورش کا حق باپ کو حاصل ہے ۔

الدر المختار میں ہے:

"(كنايته) عند الفقهاء (ما لم يوضع له) أي الطلاق (واحتمله) وغيره (ف) الكنايات (لا تطلق بها)قضاء (إلا بنية أو دلالة الحال) وهي حالة مذاكرة الطلاق أو الغضب۔"

(رد المحتار ،کتاب الطلاق ،باب الکنایات،ج:3،ص:297،ط:سعید)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما حكم الطلاق البائن فالطلاق البائن نوعان: أحدهما الطلقات، والثاني الطلقة الواحدة البائنة، والثنتان البائنتان،۔۔۔۔فإن كانا حرين فالحكم الأصلي لما دون الثلاث من الواحدة البائنة، والثنتين البائنتين هو نقصان عدد الطلاق، وزوال الملك أيضا حتى لا يحل له وطؤها إلا بنكاح جديد ولا يصح ظهاره، وإيلاؤه ولا يجري اللعان بينهما ولا يجري التوارث ولا يحرم حرمة غليظة حتى يجوز له نكاحها من غير أن تتزوج بزوج آخر؛ لأن ما دون الثلاثة - وإن كان بائنا - فإنه يوجب زوال الملك لا زوال حل المحلية."

(کتاب الطلاق ج:3/ص:187 /ط:سعید)

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"والأم والجدة أحق بالغلام حتى يستغني وقدر بسبع سنين وقال القدوري حتى يأكل وحده ويشرب وحده ويستنجي وحده وقدره أبو بكر الرازي بتسع سنين والفتوى على الأول"

(کتاب الطلاق باب الحضانہ ج:1/ص:542/ط:رشیدیہ)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما الجارية فهي أحق بها حتى تحيض كذا ذكر في ظاهر الرواية وحكى هشام عن محمد حتى تبلغ أو تشتهي."

(کتاب الحضانۃ، فصل فی وقت الحضانۃ،ج:4،ص:42،ط:سعید) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100148

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں