ایک آدمی نے بیوی کو تین پتھر دے کر کہا کہ یہ لے لو(دا دری کانڑی در واخله) یہ تین پتھر لے لو(تہ پہ ماطلاقہ یی) آپ مجھ پر طلاق ہو (نن بعد تہ پہ ماخور یی) آج کے بعد آپ مجھ پر ماں بہن ہیں، اب پوچھنا یہ ہےکہ اس شخص کی بیوی پر کتنی طلاقیں واقع ہوگئی ہیں ؟
واضح رہے کہ الفاظِ طلاق کہے بغیر محض پتھر دینے سے طلاق واقع نہیں ہوتی ، لیکن اگر کسی علاقےکے عرف میں شوہر طلاق کے لئے تین پتھر دے کر طلاق کا لفظ ادا کرتا ہے تو تین طلاق واقع ہوں گی، لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر سائل کے ہاں طلاق دینے کا طریقہ یہی معروف ومشہور ہےتو بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوچکی ہیں، نکاح ختم ہوچکا ہے بیوی حرام ہوچکی ہے۔
الدرالمختار میں ہے:
" وركنه لفظ مخصوص خال عن الاستثناء.
قال في الرد: (قوله وركنه لفظ مخصوص) هو ما جعل دلالة على معنى الطلاق من صريح أو كناية فخرج الفسوخ على ما مر، وأراد اللفظ ولو حكما ليدخل الكتابة المستبينة وإشارة الأخرس والإشارة إلى العدد بالأصابع في قوله أنت طالق هكذا كما سيأتي.
وبه ظهر أن من تشاجر مع زوجته فأعطاها ثلاثة أحجار ينوي الطلاق ولم يذكر لفظا لا صريحا ولا كناية لا يقع عليه كما أفتى به الخير الرملي وغيره."
(کتاب الطلاق، ج:4، ص:420، ط:رشیدیه)
وفیه أیضا:
(أنت طالق هكذا مشيرا بالأصابع) المنشورة (وقع بعدده) بخلاف مثل هذا، فإنه إن نوى ثلاثا وقعن وإلا فواحدة لأن الكاف للتشبيه في الذات ومثل للتشبيه في الصفات، ولذا قال أبو حنيفة: إيماني كإيمان جبريل لا مثل إيمان جبريل بحر (وتعتبر المنشورة) المضمومة إلا ديانة ككف والمعتمد في الإشارة في الكف نشر كل الأصابع. ونقل القهستاني أنه يصدق قضاء بنية الإشارة بالكف وهي واحدة، ولو لم يقل هكذا يقع واحدة لفقد التشبيه.
قال في الرد: قوله ولم لم يقل هكذا) أي بأن قال:أنت طالق وأشار بثلاث أصابع ونوى الثلاث ولم يذكر بلسانه فإنها تطلق واحدة خانية."
(کتاب الطلاق، ج:4، ص:483، ط:رشیدیه)
وفیه أیضا:
"و يكره قوله أنت أمي ويا ابنتي ويا أختي ونحوه.(قوله: ويكره إلخ) جزم بالكراهة تبعا للبحر والنهر والذي في الفتح: وفي أنت أمي لايكون مظاهرًا، و ينبغي أن يكون مكروهًا، فقد صرحوا بأن قوله لزوجته: يا أخية مكروه. وفيه حديث رواه أبو داود «أن رسول الله صلى الله عليه وسلم سمع رجلًا يقول لامرأته: يا أخية فكره ذلك و نهى عنه» و معنى النهي قربه من لفظ التشبيه، و لولا هذا الحديث لأمكن أن يقال هو ظهار لأن التشبيه في أنت أمي أقوى منه مع ذكر الأداة، و لفظ " يا أخية " استعارة بلاشك، و هي مبنية على التشبيه، لكن الحديث أفاد كونه ليس ظهارًا حيث لم يبين فيه حكمًا سوى الكراهة و النهي، فعلم أنه لا بدّ في كونه ظهارًا من التصريح بأداة التشبيه شرعًا، و مثله أن يقول لها يا بنتي، أو يا أختي و نحوه."
(كتاب الطلاق، باب الظهار، ج:5، ص:133، ط: رشیدیه)
البحر الرائق میں ہے:
"(قوله: (أنت طالق هكذا وأشار بثلاث أصابع فهي ثلاث) لأن هذا تشبيه بعدد المشار إليه---وقيد بقوله هكذا لأنه لو قال أنت طالق وأشار بأصابعه ولم يقل هكذا فهي واحدة لفقد التشبيه المتقدم.
قال ابن عابدین في حاشیته علی البحرالرائق (منحة الخالق) :
(قوله: ولم يقل هكذا فهي واحدة) قال الرملي: وإن نوى به الثلاث كما في التتارخانية عن الخانية وبه يعلم جواب ما يقع من الأتراك من رمي ثلاث حصوات قائلا أنت هكذا ولا ينطق بلفظ الطلاق وهو عدم الوقوع تأمل اهـ."
(کتاب الطلاق، باب ألفاظ الطلاق، فصل في إضافة الطلاق إلى الزمان، ج:3، ص:309، ط:دار الكتاب الإسلامي)
فتاوی دارالعلوم دیوبند میں ہے:
” تین پتھر پھینکے اور کہے چلی جا اس کا حکم کیا ہے
(سوال (٤٥٠/٢ ) رجل طرح ثلاث مدرات الى امرأته وقال اٹھ اور چلی جا۔ میرے گھر میں نہ بیٹھ۔
ما حكم طلاقه اى هي بائنة بتطليقة واحدة ام مطلقة بثلاث مغلظة فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره.
(جواب) إن تكلم بهذه الكلماتناويا الطلاق تبين بواحدة تم لا تقع أخرى لان البائن لا يلحق البائن ، كذا في الدر المختار فيجوز له النكاح بها بلا تحليل.
في الشامي: فلا يقع بالقاء ثلاثة أحجار اليها او بامرها بحلق شعرها وان اعتقد الا لقاء والحلق طلاقاً انتهی و قوله اٹھ چلی جا الخ ان كان بنیة الطلاق تقع به واحدة باتنة . كما مر - فقط۔
(کتاب الطلاق، ج:9، ص:248، ط:دارالاشاعت)
فتاوی محمودیہ میں ہے:
من از زن سوال کردم مگر خدا می خواهی یعنی در حال خشم سوال کردم، گفت: بلی بخواهم.
بعد از چندین دقیقه سه عدد سنگ بطرف او انداختم، گفتم: بردار.
(۲) من در حالت خشم و غضب از زن خود سوال کردم که تو طلاق میخواهی؟ زن گفت: می خواهم بار ثانی سه عدد سنگ بطرف او انداختم گفتم: بردار، خاموش باش.رائی خود را دریں مرقوم فرمايند عند الله ماجور فقط .
الجواب حامداً ومصلياً:
اگر این طریق دران دیار برائے طلاق دادن رائج است، طلاق واقع خواهد شد.
ورنه در حقیقت سه سنگ سه طلاق نیست بیش از بیش تفویض طلاق گفته خواهد شد . الغرض! مدار برغرف ورواج است . فقط واللہ تعالیٰ اعلم ۔
حرره العبد محمود غفر له، دارالعلوم دیوبند ۹۴/۳/۳۰ھ۔
(کتاب الطلاق، الفصل الثانی فی عدم وقوع الطلاق، ج:12، ص:252، ط:دارالإفتاء جامعه فاروقیه)
أحسن الفتاوی میں ہے:
تین نوٹ دے کر کہا تجھے طلاق :
سوال ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین نوٹ پیٹ کر ہاتھ میں دیتے اور کہا تجھے طلاق، اس صورت میں کتنی طلاقیں ہوتیں؟ بینوا توجروا
الجواب باسم ملهم الصواب:
تین نوٹ دینا اس پر قرینہ ہے کہ شوہر نے لفظ طلاق سے تین طلاقوں کی نیت کی ہے جو صحیح ہے، اس لئے تین طلاقیں واقع ہو گئیں، ولا يرد عليه ما فی العلائية في بحث الاشارة بالاصابع ولو لم يقيل هكذ ا يقع واحدة لفقد التشبيه وفى الشامية أی بالعدد، قال القهستاني لانه كما لا يتحقق الطلاق بدون اللفظ لا يتحقق عددہ بدونه( رد المحتار ص:۴۸۶، ج:۲ ) لان هذا في قوله انت طالق وهو لا يحتمل العدد فاحتيج إلى لفظه بخلاف مسألتنا فانها متعلقة بقوله طلاق وهو يحتمل العدد فالاشارة تكون قرينة على النيةلاسيما اذا صار ذلك عرفاً، فقط والله تعالى أعلم.
(کتاب الطلاق، ج:5، ص:188، ط:سعید)
وفیه أیضا:
” آج کل عرف میں یہ طریقہ عام مروج ہے کہ عدد طلاق کی توضیح کے لیے تین پتھر وغیرہ پھینکے جاتے ہیں،لہذا عرف کے مطابق تین کنکریوں کو عدد پر محمول کیا جائے گا اور تین طلاقیں واقع ہوجائیں گی ، فقط واللہ أعلم.“
(کتاب الطلاق، ایقاع الطلقات بالقاء الجمرات، ج:5، ص:205، ط:سعید)
فتاوی رحیمیہ میں ہے:
اگر لفظ ’’ایک دو میں ‘‘ کسی مقام کے عرف میں طلاق ہی کے لئے مستعمل ہو تو کیا حکم ہے؟:
(سوال ۳۶۵)بعد سلام مسنون! خدمت اقدس میں گذارش ہے کہ ہماے شہر گودھرا میں میاں بیوی کی تکرار یا جھگڑوں میں عام طور پر شوہر لفظ ’’ ایک دو تین‘‘ زبان سے نکال دیتا ہے ، اس کے ساتھ لفظ ’’ طلاق‘‘ نہیں اگر یہ لفظ گودھر اشہر کے عرف میں اتنا عام ہوچکا ہے کہ سننے والے اس سے یہی سمجھتے ہیں کہ فلاں نے اپنی بیوی کوطلاق دے دی ، نیز گودھرا کے اکثر علماء کار رجحان اسی طرف ہے کہ گودھرا کے عرف میں لفظ’’ایک دو تین ‘‘ کثرت استعمال کی وجہ سے صریح کے حکم میں آگیاہے، لہذا اس لفظ سے عورت پر طلاق مغلظہ واقع ہوجائے گی ، نیز عوام کا بھی یہی حال ہے کہ ان الفاط کے استعمال کے بعد ان امور کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں جو طلاق کے بعد عمل میں آتے ہیں تو سوال یہ ہے کہ ان الفاظ کا کیا حکم ہے ؟ کیا عرف کی وجہ سے یہ لفظ طلاق صریح کے حکم میں ہوگا؟ اور اس سے طلاق مغلظہ واقع ہوگی یا نہیں ؟ امید ہے کہ ہماری رہنمائی فرمائیں گے ۔ بینواتوجروا۔
(الجواب)اگر سوال میں درج شدہ باتیں صحیح ہوں اور مقامی علماء کی تحقیق یہ ہو کہ گودھرا کے عرف میں یہ لفظ طلاق ہی کے لئے مستعمل ہوتا ہے اور لوگ اس سے طلاق ہی مراد لیتے ہیں تو حسب سوال آپ کے یہاں کے عرف کے مطابق احکام جاری ہوں گے ، عرف بدلنے سے حکم بدلتا ہے ، شامی میں ہے :وقد مران الصریح ماغلب فی العرف استعمالہ‘ فی الطلاق بحیث لا یستعمل عرفاً الا فیہ من ای لغۃ کانت وھذا فی عرف زماننا کذالک فوجب اعتبارہ صریحاً کما افتیٰ المتاخرون فی انت علی حرام بانہ طلاق بائن للعرف بلا نیۃ مع ان المنصوص علیہ عند المتقدمین تو قفہ علی النیۃ الخ (شامی ج۲ ص ۵۹۴ باب الصریح)
نیز شامی میں ہے :وان کان الحرام فی الا صل کنایۃ یقع بھا البائن لانہ لما غلب استعمالہ فی الطلاق لم یبق کنایۃ ولذالم یتو قف علی النیۃ اودلا لۃ الحال ۔الی قولہ ۔ ثم فرق بینہ وبین سرحتک فان سرحتک کنایۃ لکنہ فی عرف الفرس غلب استعمالہ فی الصریح فاذاقال رہا کردم ای سرحتک یقع بہ الرجعی مع ان اصلہ کنایۃ ایضاً وما ذاک الا لانہ غلب فی عرف الفرس استعمالہ فی الطلاق وقد مر ان الصریح مالم یستمل الا فی الطلاق من ای لغۃ کانت (شامی ج۲ ص ۶۳۸ باب الکنایات)
لہذا جب صورت مسئولہ میں آپ کے یہاں کے عرف کے اعتبار سے یہ الفاظ صریح کے حکم میں ہوگے ہوں ، علماء کی یہی تحقیق ہو تو آپ کے یہاں کے عرف کے اعتبار سے ان الفاظ سے بلانیت طلاق بھی تین طلاق واقع ہوں گی ڈرانے اور دھمکانے کا بہانہ مسموع نہ ہوگااور اسی میں احتیاط ہے کہ باب فروج میں احتیاط پر عمل کرنا اولیٰ ہے ۔شامی میں ہے : لا نہ یعمل بالاحتیاط خصوصاً فی باب الفروج (شامی ج۱ ص ۶۲۴ قبیل باب طلاق غیر المد خول بھا )۔فتاویٰ خیریہ میں ایک جواب میں تحریر فرمایا ہے : لا یقبل قولہ (ای قول الزوج ) علی ماعلیہ الا عتماد والفتویٰ احتیاطاً فی امرالفروج فی زمان غلب فیہ علی الناس الفساد ، واﷲ اعلم۔(فتاویٰ خیریہ ص ۴۳ج۱،کتاب الطلاق)فقط واﷲ اعلم بالصواب ۔
(کتاب الطلاق، باب مایتعلق في الطلاق الصریح، ج:6، ص:295، ط:دارالاشاعت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144605101233
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن