کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ مجھے 2017 میں طلاق ہوئی،میرے شوہر نے میری بیٹی کو گواہ بناکر مجھے تین مرتبہ ایک ساتھ ان الفاظ کے ساتھ"میں تجھے طلاق دیتا ہوں"طلاق دی ہے،میری بیٹی کی عمر اس وقت پندرہ سال تھی،اب میں کیا کروں،مجھے سمجھ نہیں آرہی،اور وہ مجھے اب جینے نہیں دے رہا،میں مدرسہ کی طالبہ ہوں،میں تین مہینے سے امی کے گھر بیٹھی ہوں،2017 کے بعد تین ماہ پہلے تک شوہر کے گھر پر رہی لیکن شوہر کے ساتھ کوئی ازدواجی تعلق قائم نہیں کیا،شوہر تین طلاقوں کا اقرار کرتا ہےلیکن کہتا ہے کہ میں آپ کو نہیں چھوڑوں گا،اور آپ میری ہے،میری ملکیت میں ہے،بہت تنگ کرتا ہے، اس واقعہ کا میرے بھائی کو بھی پتہ ہے، شریعت کی روشنی میں میری راہ نمائی فرمائیں۔
صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃ ً سائلہ کے شوہر نےاس کو ان الفاظ کے ساتھ کہ"میں تجھے طلاق دیتا ہوں"سے تین مرتبہ طلاق دی ہے،اور وہ اس کا اقرار بھی کرتا ہے،تو سائلہ(بیوی)پر تین طلاقیں واقع ہو چکی ہیں،اور وہ اپنے شوہر پر تین طلاقِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہو چکی ہے،اب رجوع جائز نہیں،اور دوبارہ نکاح بھی نہیں ہو سکتا،سائلہ عدت گزار چکی ہے،لہذا وہ دوسری جگہ شادی کر سکتی ہے،شرعاً اس پر دوسری جگہ شادی کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے،سابقہ شوہر کا تین طلاقوں کے بعد بیوی کو اپنی ملکیت قرار دینا شرعاً ناجائز ہے،اس کی اس بات کا کوئی اعتبار نہیں ہے، البتہ قانونی تحفظ کے لیے عدالت سے رجوع کر کے خلع لے لے تا کہ سابقہ شوہر تنگ نہ کر سکے۔
بدائع الصنائع میں ہے:
"وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله عز وجل {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: 230] ، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة".
(کتاب الطلاق، فصل في شرائط رجوع المبتوتة لزوجها، ج:3، ص:187، ط:مطبعة الجمالية بمصر)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمةلم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنهاكذا في الهداية ولا فرق في ذلك بين كون المطلقة مدخولا بها أو غير مدخول بها كذا في فتح القدير ويشترط أن يكون الإيلاج موجبا للغسل وهو التقاء الختانين هكذا في العيني شرح الكنز، أما الإنزال فليس بشرط للإحلال."
( كتاب الطلاق، الباب السادس في الرجعة وفيما تحل به المطلقة ، فصل فيما تحل به المطلقة وما يتصل به، ج:1، ص:473،ط:رشیدیہ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144601101817
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن