زید، عمرو اور بکر نےآپس میں یہ طے کیا کہ اس سال سرکاری حج جتنے کا ہو اتنے پیسے تینوں جمع کریں گے اور ایک بندہ حج پرچلاجاۓ گا ،مثلًا اگر اس سال حج کی فیس چھ لاکھ ہو تو تینوں دو دو لاکھ جمع کریں گے اور زید حج پر چلا جاۓ گا اور اگر دوسرے سال حج نو لاکھ کا ہو تو تینوں تین تین لاکھ اور اگر تیسرے سال حج بارہ لاکھ کا ہو تو چار چار لاکھ جمع کریں گے، اب مسٔلہ یہ ہے کہ زید پہلے سال حج پر جاتا ہے اور اپنے حصّے کے دو لاکھ دیتاہے اور پھر اس کے بعد چوں کہ حج کی فیس بڑھ چکی ہے، زید کو دوسرے سال تین لاکھ اور تیسرے سال چار لاکھ دینے ہیں، اب آیا زید جو دوسرے سال ایک لاکھ اور تیسرے سال دو لاکھ زیادہ دے رہا ہے کیا یہ سود میں آئے گا یا احسان و تبرع میں آئے گا؟
صورتِ مسئولہ میں جو صورت ذکر کی گی ہے وہ قرض کی ہے، لہذا زید کا دوسرے سال ایک لاکھ روپے اور تیسرے سال دو لاکھ روپے زیادہ دینا سود ہونے کی وجہ سے ناجائز اور حرام ہے لہذا ایسا معاملہ کرنے سے بچنا لازم ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"وفي الأشباه كل قرض جر نفعا حرام."
(کتاب البیوع ، فصل فی القرض جلد ۵ ص: ۱۶۶ ط: دارالفکر)
فقط و اللہ اعلم
فتوی نمبر : 144404102142
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن