بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تین لوگوں کا پانچ پانچ سو روپے ملا کر جیتنے والے کو ۱۵۰۰ دینے کے معاہدہ پر کوئی کھیل کھیلنے کا حکم


سوال

کوئی کھیل اس طرح کھیلنا کہ  3  لوگ 500  روپیہ نکا لیں  اور جیتنے والے کو انعام بول کر  1500 روپیہ دے دیا جائے، کیا یہ صحیح ہے؟

جواب

 جواب سے پہلے تمہید کے طور پر یہ ذہن نشین رہے کہ   کسی بھی   کسی قسم کا کھیل جائز ہونے کے لیے مندرجہ ذیل شرائط کا پایا جانا ضروری ہے، ورنہ وہ کھیل لہو ولعب میں داخل ہونے کی وجہ سے شرعاً ناجائز ہوگا :

1۔۔  وہ کھیل بذاتِ خود جائز ہو، اس میں کوئی ناجائز   بات نہ ہو۔

2۔۔اس کھیل میں کوئی دینی یا دنیوی منفعت  ہو، مثلاً جسمانی  ورزش وغیرہ ، محض لہو لعب یا وقت گزاری کے لیے نہ کھیلا جائے۔

3۔۔ کھیل میں غیر شرعی امور کا ارتکاب نہ کیا جاتا  ہو۔

4۔۔کھیل میں اتنا غلو نہ  کیا جائے  کہ جس سے شرعی فرائض میں کوتاہی یا غفلت پیدا ہو۔

5۔۔ کھیل میں قمار/ جوا نہ ہو۔

     اگر  ان شرائط  کی رعایت رکھتے ہوئے کوئی کھیل کھیلا جائے تو  اس کی اجازت ہے، مذکورہ طریقہ پر کھیل کھیلنا جوئے اور قمار پر مشتمل ہے ، اس  لیے کہ  "جوا" جسے عربی زبان میں’’قمار‘‘کہا جاتا ہے،  در حقیقت ہر وہ معاملہ ہے جس میں’’مخاطرہ ہو‘‘، یعنی قمار کی حقیقت یہ ہے کہ ایسا معاملہ کیا جائے جو نفع ونقصان کے خطرے کی بنیاد  پرہو، سوال میں مذکورہ طریقے میں بھی تین میں سے ہر ایک شخص پانچ سو روپے داؤ پر لگارہا ہے اس امید پر کہ شاید اس کی اپنی رقم کے ساتھ اس کے دو ساتھیوں کی رقم بھی (کھیل جیتنے کی صورت میں) اسے مل جائے، لیکن یہ بھی خطرہ ہے کہ اس کی اپنی رقم بھی  (ہارنے کی صورت میں) ڈوب جائے اور یہی بعینہ جوا اور قمار ہے، جو کہ ارشاد خداوندی کی رو سے ناجائز اور حرام ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ[المائدة :۹٠]

ترجمہ :اے ایمان والو بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور بت وغیرہ اور قرعہ کے تیر یہ سب گندی باتیں شیطانی کام ہیں،  سو ان سے بالکل الگ رہو؛ تاکہ تم کو فلاح ہو۔

      مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:

"عن ابن سیرین قال: کل شيء فیه قمار فهو من المیسر".

(4/483، کتاب البیوع  والاقضیہ، ط؛ مکتبہ رشد، ریاض)

أحکام القرآن  میں ہے:

"ولا خلاف بين أهل العلم في تحريم القمار وأن المخاطرة من القمار، قال ابن عباس: إن المخاطرة قمار، وإن أهل الجاهلية كانوا يخاطرون على المال، والزوجة، وقد كان ذلك مباحاً إلى أن ورد تحريمه".

(احکام القرآن للجصاص، 1/ 398،  باب تحریم المیسر، سورۃ البقرۃ، ط: دار الکتب العلمیۃ بیروت - لبنان)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: لأنه يصير قماراً)؛ لأن القمار من القمر الذي يزداد تارةً وينقص أخرى، وسمي القمار قماراً؛ لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص".

 (6 / 403، کتاب الحظر والاباحۃ، ط ؛ سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144206201463

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں