بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسلسل تین جمعے ترک کرنا / ملازمت کی وجہ سے نماز کی اجازت کا نہ ملنا


سوال

 جو شخص تین ہفتے تک جمعہ کی نماز نہ  پڑھے تو وہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے یا نہیں ؟

اگر کوئی شخص ایسی کمپنی میں کام کرتا ہو،  جہاں  کا مالک  نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دیتا، اب مجبوری کی وجہ سے جمعہ کی نماز چھوڑ سکتا ہے؟

جواب

1- جمعہ کی نماز فرض ہے اور  بلاعذر جمعہ کی نماز ترک کرنے والا سخت گناہ گار ہے، احادیثِ مبارکہ میں جمعہ کی نماز چھوڑنے والوں سے متعلق سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں ۔

چنانچہ مشکاۃ شریف میں ہے :

"مشكاة المصابيح - (1 / 306):

"عن ابن عمر وأبي هريرة أنهما قالا : سمعنا رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول على أعواد منبره : " لينتهين أقوام عن ودعهم الجمعات أو ليختمن الله على قلوبهم ثم ليكونن من الغافلين" . رواه مسلم."

’’ حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما دونوں راوی ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے منبر کی لکڑی (یعنی اس کی سیڑھیوں) پر یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ لوگ نمازِ جمعہ  چھوڑنے سے باز رہیں،  ورنہ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں پر مہر لگا دے گا اور وہ غافلوں میں شمار ہونے لگیں گے۔‘‘

نیز ایک دوسری روایت میں ہے :

مشكاة المصابيح - (1 / 307):

"عن أبي الجعد الضميري قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من ترك ثلاث جمع تهاونا بها طبع الله على قلبه " . رواه أبو داود والترمذي والنسائي وابن ماجه والدارمي."

’’ حضرت ابی الجعد ضمیری راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جو آدمی محض سستی و کاہلی کی بنا پر تین جمعے چھوڑ دے گا۔ اللہ تعالیٰ اس کے دل پر مہر لگائے دے گا۔‘‘

مشکاۃ شریف کی ایک اور روایت میں ہے :

مشكاة المصابيح - (1 / 308):

"و عن ابن عباس أن النبي صلى الله عليه وسلم قال : " من ترك الجمعة من غير ضرورة كتب منافقًا في كتاب لايمحى و لايبدل". و في بعض الروايات ثلاثا . رواه الشافعي."

’’ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو آدمی بغیر کسی عذر کے نماز جمعہ چھوڑ دیتا ہے وہ ایسی کتاب میں منافق لکھا جاتا ہے جو نہ کبھی مٹائی جاتی ہے اور نہ تبدیل کی جاتی ہے‘‘.  اور بعض روایات میں یہ ہے کہ ’’جو آدمی تین جمعے چھوڑ دے‘‘ (یہ وعید اس کے لیے ہے)۔

اس حدیث کی تشریح میں صاحب مظاہر حق لکھتے ہیں :

’’ مطلب یہ ہے کہ ترکِ جماعت کے جو عذر ہیں مثلاً کسی ظالم اور دشمن کا خوف، پانی برسنا، برف پڑنا یا راستے میں کیچڑ وغیرہ کا ہونا وغیرہ وغیرہ اگر ان میں سے کسی عذر کی بنا پر جمعہ کی نماز کے لیے نہ جائے تو وہ منافق نہیں لکھا جائے گا، ہاں بغیر کسی عذر اور مجبوری کے جمعہ چھوڑنے والا منافق لکھا جائے گا  ...  حاصل یہ ہے کہ نمازِ جمعہ چھوڑنے والا اپنے نامہ اعمال میں کہ جس میں نہ تنسیخ  ممکن ہے اور نہ تغیر و تبدل ، منافق لکھ دیا جاتا ہے، جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ نفاق جیسی ملعون صفت ہمیشہ کے لیے چپک کر رہ جاتی ہے؛ تاکہ آخرت میں یا تو اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اسے عذاب میں مبتلا کر دے یا اپنے فضل و کرم سے درگزر فرماتے ہوئے اسے بخش دے۔  غور و فکر کا مقام ہے کہ نمازِ جمعہ چھوڑنے کی کتنی شدید وعید ہے؟ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے عذاب سے محفوظ رکھے‘‘۔

ان احادیث سے جمعہ کی نماز کی اہمیت کا علم ہوتاہے، نیز ترکِ جمعہ پر جو وعیدیں وارد ہیں وہ بھی ان روایات میں واضح طور پر مذکور ہیں ۔البتہ سستی ،کاہلی اور غفلت کی وجہ سے اگر کسی سے تین جمعے  چھوٹ جائیں تو وہ اسلام سے خارج نہیں ہوگا۔تاہم ایسا شخص سخت گناہ گار ہے،جمعہ جیسی عظیم نما زکے ترک پر سچے دل سے توبہ واستغفار لازم ہے اور آئندہ نما زجمعہ کے اہتمام کا پکاعزم کرنا ضروری ہے۔

2- ہر مسلمان عاقل پر پانچوں وقت نماز ادا کرنا فرضِ عین ہے، اور ان نمازوں کا بالکل ترک کردینا یا وقتِ مقررہ پر ادا نہ کرنا یابلاعذر جماعت کا چھوڑدیناشدید گناہ ہے، اور ملازمت ایسا عذر نہیں کہ اس کی وجہ سے نماز معاف ہوجائے،یاجماعت کو ترک کردیا جائے۔

نیزمالک کے لیے اس بات کی اجازت نہیں کہ وہ ملازم کو فرض نماز کی ادائیگی سے منع کرے، اور نماز کے ترک کرنے میں مالک کی بات مانناجائز نہیں ہے؛ لہذا مالک سے بات چیت کرکے اسے نمازوں (پانچوں نمازوں بشمول نماز جمعہ کے  متعلق) اجازت پر آمادہ کیاجائے اور فرض نماز اور سنتِ مؤکدہ کی ادائیگی کا وقت طلب کیاجائے، یا اسے کہہ دیاجائے کہ جتنا وقت نماز میں صرف ہوتاہے اتنے وقت کو ملازمت کے وقت سے منہاکردیں اور جو  وقت ملازمت میں خرچ ہوتاہے اس کی تنخواہ مقررکردے۔اگر اس پر بھی راضی نہ ہو توجب تک ملازمت ہے جمعہ کی نماز نہ چھوڑیں، اجازت نہ ملے تو بغیر اجازت جمعے کے خطبے سے اتنا پہلے چلے جائیں کہ سنتیں ادا کرکے، جمعہ کا خطبہ سن کر فرض نماز میں جماعت کے  ساتھ  شریک ہوکر بعد کی سنتِ مؤکدہ پڑھ کر آجائیں، اس سے آمدنی میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

اور اگر مالک کسی صورت نماز کے لیے جانے کی اجازت دینے پر راضی نہ ہو تو ایسے شخص کے ہاں ملازمت جائز نہیں،مذکورہ ملازمت کے بجائے دوسری جگہ معاش کا ذریعہ تلاش کرنالازم ہے۔

شہید اسلام حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدؒ لکھتے ہیں :

"جو فرض نماز کی اجازت نہ دے اس کی ملازمت جائز نہیں

س… میں ایک ایسی جگہ پر دُکانداری کی مزدوری کرتا ہوں جہاں پر مجھے دوپہر بارہ بجے سے رات دس بجے تک ڈیوٹی دینی پڑتی ہے، یہ دُکان ایک چھوٹا سا کریانہ اسٹور ہے، اس ڈیوٹی کے دوران چار نمازوں کا ٹائم آتا ہے، جب کہ مالک مجھے نماز کے  لیے وقفہ نہیں دیتا، اس مجبوری کی وجہ سے رات دس بجے چھٹی کے بعد نمازیں قضا پڑھتا ہوں۔ برائے مہربانی قرآن و سنت کی روشنی میں بتائیں کہ کیا میری یہ نمازیں قبول ہوں گی؟ اگر نہیں تو پھر مجھے کوئی راستہ بتائیں کہ میں کیا کروں؟

ج… ایسا شخص جو فرض نماز کی بھی اجازت نہیں دیتا، اس کے یہاں ملازمت ہی جائز نہیں۔" (3/187مکتبہ لدھیانوی)

شرح سنن أبي داود ـ عبد المحسن العباد - (6 / 257):

يعني: أن أمرها خطير، وليس بالأمر الهين، وفيه وعيد شديد، فعلى المسلم أن يحذر من أن يحصل منه التساهل والتهاون في ذلك؛ حتى لا يحصل له هذا الأمر الذي توعد به على لسان رسول الله صلى الله عليه وسلم، وهو قوله عليه الصلاة والسلام: (من ترك ثلاث جمع تهاوناً بها طبع الله على قلبه)، أي: أنه لا يحضرها، وإنما يصلي وحده أو في جماعة ظهراً، والرسول صلى الله عليه وسلم أخبر أن الذي يتكرر منه هذا العمل يطبع الله على قلبه، فلا يصل إليه هدى، ولا يصل إليه خير، وهذا يدلنا على خطورة هذا العمل، وأنه أمر لا يسوغ ولا يجوز، وأن الواجب على كل مسلم أن يحرص على حضور الجمعة والجماعة، ولا يتهاون في ذلك؛ حتى لا يعرض نفسه للوقوع في هذا الوعيد الشديد الذي جاء عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، ومثل هذا ما جاء في صحيح مسلم عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال وهو يخطب على المنبر: (لينتهين أقوام عن ودعهم الجمعات أو ليختمن الله على قلوبهم ثم ليكونن من الغافلين)، وكل هذا يدلنا على خطورة التخلف عن صلاة الجمعة.

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144110201747

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں