بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 شوال 1445ھ 09 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تین ہزار کی آبادی پر مشتمل گاؤں میں جمعہ کا حکم


سوال

ہمارا گاؤں  تقریباً دو سو پچاس گھرانوں پر مشتمل ہے، گاؤں کی مجموعی آ بادی تقریباً تین ہزار افراد پر مشتمل ہے، نیز گاؤں کے بازار میں پچیس دوکانیں ہیں جس میں ضروریات زندگی باآسانی دستیاب ہیں ،نیز یوٹیلیٹی سٹور،  نائی شاپ،  جیولر ویلڈر،  آٹو ورکشاپ،  دوسرے کارخانے مثلاً آرا مشین اور گندم پسائی مشین بھی موجود ہیں،  گاؤں میں دو ہائی اسکول،  ڈسپنسری، گندم ڈپو اور   ڈاک خانہ بھی ہے، نیز ہمارے گاؤں سے تقریباً ڈھائی کلومیٹر کے فاصلے پر دو گاؤں ہیں جو کہ ہمارے گاؤں کی حدود میں ہے ، جن کی آبادی بھی تقریباً دو ہزار ہے،  جب کہ ہمارے گاؤں سے جانبِ  جنوب چھ کلومیٹر کے فاصلے پر فوجی چھاؤنی اور پولیس سٹیشن بھی ہے،  وہاں جمعہ کی نماز و عیدین کی نماز پڑھی جاتی ہے،  جب کہ شمال کی طرف پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر گاؤں رحمان پور واقع ہے اس گاؤں میں بھی نماز جمعہ پڑھی جاتی ہے شریعت کی رو سے راہ نمائی فرمائیں ہمارے گاؤں میں نماز جمعہ کاکیا حکم  ہے؟

جواب

 واضح رہے کہ جمعہ کے صحیح ہونے کی شرائط میں سے ایک شرط اس جگہ کا شہریا فناء شہرکاہونا ہے،اس طرح اگر کوئی جگہ  قریہ کبیرہ ہو یعنی اتنا بڑا گاؤں کہ جس کی مجموعی آبادی کم از کم ڈھائی تین ہزار نفوس پر مشتمل ہو اور اس بڑے گاؤں میں ایسا بازار ہو کہ جہاں ضروریات زندگی کا تمام سامان آسانی سے ملتا ہو تو ایسے    بڑے گاؤں میں جمعہ ادا کرنا درست ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں ذکر کردہ علاقہ  جس کی آبادی تقریباًتین ہزار    افراد  پر مشتمل ہے اور اس میں ضروریاتِ زندگی کا سامان بھی میسر ہے ،تو اس میں نمازِ جمعہ اور عیدین کی نماز  قائم کرنا درست ہے۔

فتاوٰی ہندیہ میں ہے:

"(ولأدائها شرائط في غير المصلي) . منها المصر هكذا في الكافي، والمصر في ظاهر الرواية الموضع الذي يكون فيه مفت وقاض يقيم الحدود وينفذ الأحكام وبلغت أبنيته أبنية منى، هكذا في الظهيرية وفتاوى قاضي خان.وفي الخلاصة وعليه الاعتماد، كذا في التتارخانية ومعنى إقامة الحدود القدرة عليها، هكذا في الغياثية. وكما يجوز أداء الجمعة في المصر يجوز أداؤها في فناء المصر وهو الموضع المعد لمصالح المصر متصلا بالمصر."

(كتاب الصلاة، الباب السادس عشر في صلاة الجمعة،ج: 145،ص:1، ط:رشيدية)

فتاوی شامی میں ہے:

"وعبارة القهستاني تقع فرضا في القصبات والقرى الكبيرة التي فيها أسواق.......وفيما ذكرنا إشارة إلى أنه لا تجوز في الصغيرة التي ليس فيها قاض ومنبر وخطيب كما في المضمرات ."

(کتاب الصلوۃ ، باب صلوۃ الجمعة، ج:2ص:138،ط: دارالفکر)

فتاوی دارالعلوم دیوبند میں ہے:

"محققین کی تحقیق یہ ہے کہ جو قریہ مثل چھوٹے قصبہ کے ہو مثلاً تین چار ہزار آدمی اس میں آباد ہوں وہ قریہ کبیرہ ہے اور جو اس سے کم ہو وہ چھوٹا ہے۔"

(کتاب الصلوۃ ج:1، ص:294، ط:دارالاشاعت)

فتاوی دارالعلوم دیوبند میں ہے: 

"سوال :موضع سوجڑو  وضلع مظفر نگر میں تقریبا تین ہزار مردم شماری یا کچھ کم ہے اور بازار اس موضع میں نہیں ہے اور کوئی سودا وغیرہ یا دوا بھی نہیں ملتی اور موضع کو شہر سے فصل کوس سوا کوس کا ہے ایسے دیہات میں جمعہ جائز ہے یا نہیں ۔

الجواب: شامی میں تصریح کی ہے کہ قصبہ اور بڑے قریہ میں جمعہ صحیح ہے عبارت اس کی یہ ہے تقع فرضا في القصبات والقرى الكبيرة التي فيها أسواق قال أبو القاسم: هذا بلا خلاف إذا أذن الوالي أو القاضي ببناء المسجد الجامع وأداء الجمعة لأن هذا مجتهد فيه فإذا اتصل به الحكم صار مجمعا عليه، وفيما ذكرنا إشارة إلى أنه لا تجوز في الصغيرةالخ پس قریہ مذکورہ بظاہر قریہ کبیرہ کہ آبادی اس کی تین ہزار کے قریب ہے ، لہذا جمعہ پڑھنا اس میں واجب ہے اور صحیح ہے۔"

(کتاب الصلوۃ ، الباب الخامس عشر : فی صلوۃ الجمعۃ ج:5،  ص:62، ط: دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407100961

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں