بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تین ہزار کی آبادی والے گاؤں میں جمعہ کی نماز ادا کرنا


سوال

ہم تو نہ  عرفی شہر میں رہتے ہیں، نہ فنائے مصر میں نہ مضافات میں، بلکہ گاؤں  میں رہتے ہیں   اور وہاں نمازِ جمعہ عرصہ طویل سے پڑھی جارہی ہے، حالاں کہ کہ علماء کا کہنا  ہے کہ  یہاں نماز پڑھنا صحیح نہیں ہے،  لیکن وہاں ایک عالم ِدین نمازِ جمعہ اور دوسرا ظہر کی نماز پڑھا رہا ہے،  جس کی وجہ  سے عوام الناس اضطراب کا شکار ہیں کہ کہاں جائیں اور کس کی مانیں؟ 

اور ہمارے گاؤں میں الگ الگ محلے ہیں اور ان سب کا ایک نام رکھا گیا ہے،  جن کی خوشی، غمی،  جنازہ گاہ اور شناختی کارڈ کا نام بھی ایک ہے اور آبادی تقریباً 3000 ہزار کے قریب ہے  اور تقریباً 25 دکانیں ہیں،  بعض میں ضروریاتِ زندگی یعنی آٹا چینی، گھی وغیرہ وغیرہ سب دستیاب ہیں،  لیکن اس کے باوجود لوگ ہر صبح کو شہر جاتے ہیں اور چیزیں خریدتے ہیں. اور پانچ کلینک ہیں،  لیکن ہسپتال،  پولیس سینٹر، قاضی  اور قصابی  وغیرہ نہیں ہیں،  سات مساجد ہیں ، لیکن ان میں سے دو میں نماز ِجمعہ ادا کی جاتی ہیں اور پانچ میں نماز ظہر اور اگر ان دو مساجد کے نمازیوں کو ایک مسجد میں جمع کیا جائے تو وہ اس میں آ سکتے ہیں،  لیکن اس کے باوجود بھی الگ الگ پڑھتے ہیں. از راهِ کرم شریعت کی روشنی میں جواب واضح فرمائیں کہ ہمارے اوپر نماز جمعہ فرض ہیں یا نماز ظہر؟

جواب

واضح رہے کہ جمعہ کے صحیح ہونے کی شرائط میں سے ایک شرط شہریا اس کے مضافات کا ہونا ہے،اور قریہ کبیرہ یعنی بڑا گاؤں بھی شہر کے حکم میں داخل ہے، بڑا گاؤں اس  کو کہا جاتا ہے جو لوگوں کے عرف میں بڑا  گاؤں کہلاتا ہو،  نیز  اقامتِ جمعہ کے لیے دیگر ضروریات کے مقابلے میں فقہاء کرام نے زیادہ اعتبار آبادی کا کیا ہے،    چناں چہ جس گاؤں کی مجموعی آبادی کم از کم ڈھائی تین ہزار  لوگوں  پر مشتمل ہو، اس گاؤں میں ایسا بڑا بازار ہو، جس میں روز مرہ کی تمام اشیاء با آسانی مل جاتی ہوں  تو  یہ عرف میں    قریہ کبیرہ یعنی بڑی بستی کہلاتی ہے۔

لہذا سوال میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق مذکورہ گاؤں میں جو مختلف محلے ہیں، وہ  سب مستقل نہیں ہیں، بلکہ ان سب کا ایک ہی نام ہے اور وہ سب  اسی گاؤں کا حصہ شمار ہوتے ہیں، اور اس گاؤں کی  آبادی تقریباً تین ہزار نفوس پر مشتمل ہے، گاؤں میں روز مرّہ کی ضرویات کی چیزیں بھی دستیاب ہیں تو یہ قریۂ کبیرہ کے حکم ہے، لہذا مذکورہ گاؤں  میں جمعہ کی نماز  ادا کرنا  ضروری ہے۔

اور اگر یہ شرائط    نہیں پائی جاتیں(  یعنی ڈھائی ، تین ہزار کی آبادی اور روز مرّہ ضروریات کی تمام اشیاء دستیاب نہیں)  تو پھر وہاں جمعہ قائم کرنا درست نہیں، باقی اگر وہاں کے علماء میں اختلاف  پیدا ہونے کی بنیادی وجہ  روز مرّہ کی تمام ضروریات  کی دست یابی اور عدم دست یابی  یا پھر آبادی کی تعداد  کے بارے میں ہوتو  ان علماء کے لیے مناسب یہ ہے کہ  مل  بیٹھ  کر ان کا حل نکالیں  اور وہاں کے احوال کے بارے میں  ایک رائے پر متفق ہوکر کسی مستند  ومعیاری  دارالافتاء سے   شرعی حکم معلوم کرکے  اس پر اتفاقِ رائے سے عمل کریں ، عوام کو اختلافی مسئلہ میں الجھا کر  انتشار پیدا کرنے کا باعث نہ بنیں۔ 

نیز  اگر ایک بڑی جامع مسجد میں سب لوگ  مل کر جمعہ کی نماز  سہولت سے ادا کرسکتے ہوں تو    جامع مسجد میں اجتماعی طور پر جمعہ کی نماز ادا کرنا  بہتر ہے؛ اس لیے کہ  مسلمانوں کے   جامع مسجد میں جمع ہوکر ایک ساتھ نماز پڑھنے میں   اجر وثواب اور فضیلیت زیادہ ہے، نماز  میں  جس قدر مجمع زیادہ ہوگا ، اس کا ثواب اور قبولیت کا امکان  بھی زیادہ ہوگا ، نیز اس میں مسلمانوں کی شان وشوکت کا اظہار بھی ہے۔   اور اگر جگہ کی دور یا تنگی یا کسی معقول وجہ سے مختلف مساجد میں جمعہ کی نماز ادا کی جائے تو یہ بھی جائز ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(ويشترط لصحتها) سبعة أشياء:الأول: (المصر وهو ما لايسع أكبر مساجده أهله المكلفين بها) وعليه فتوى أكثر الفقهاء، مجتبى؛ لظهور التواني في الأحكام، وظاهر المذهب أنه كل موضع له أمير وقاض قدر على إقامة الحدود كما حررناه فيما علقناه على الملتقى. وفي القهستاني: إذن الحاكم ببناء الجامع في الرستاق إذن بالجمعة اتفاقا على ما قاله السرخسي وإذا اتصل به الحكم صار مجمعاً عليه فليحفظ.

 (قوله: وفي القهستاني إلخ) تأييد للمتن، وعبارة القهستاني تقع فرضا في القصبات والقرى الكبيرة التي فيها أسواق قال أبو القاسم: هذا بلا خلاف إذا أذن الوالي أو القاضي ببناء المسجد الجامع وأداء الجمعة لأن هذا مجتهد فيه فإذا اتصل به الحكم صار مجمعا عليه، وفيما ذكرنا إشارة إلى أنه لا تجوز في الصغيرة التي ليس فيها قاض ومنبر وخطيب كما في المضمرات والظاهر أنه أريد به الكراهة لكراهة النفل بالجماعة؛ ألا ترى أن في الجواهر لو صلوا في القرى لزمهم أداء الظهر، وهذا إذا لم يتصل به حكم، فإن في فتاوى الديناري إذا بني مسجد في الرستاق بأمر الإمام فهو أمر بالجمعة اتفاقا على ما قال السرخسي اهـ فافهم والرستاق القرى كما في القاموس."

 (2/ 137، 138 كتاب الصلاة، باب الجمعة، ط: سعيد)

            امداد الفتاوی میں ہے:

"اور کبیرہ اور صغیرہ میں مابہ الفرق اگر آبادی کی مقدار لی جاوے تو اس کا مدار عرف پر ہوگا اور عرف کے تتبع سے معلوم ہوا کہ حکامِ وقت جو کہ حکمائے تمدن بھی ہیں، چار ہزار آبادی کو قصبہ میں شمار کرتے ہیں"۔ 

(کتاب الصلوۃ ،باب صلوۃ الجمعۃ والعیدین ،488/1،ط:دارالعلوم)

فتاوی دارالعلوم دیوبند میں ہے:

"فقہاء نے تصریح فرمائی ہے کہ قصبات اور قریہ کبیرہ میں نمازِ جمعہ  فرض ہے اورادا ہوتی ہے اور یہ بھی تصریح فرمائی ہے کہ چھوٹے قریہ میں باتفاقِ علمائے حنفیہ  جمعہ نہیں ہوتا ۔۔ اور قریہ کا چھوٹا بڑا ہونا مشاہدہ  سے اور کثرت و قلتِ آبادی سے معلوم ہوتا ہے ،جس قریہ میں تین چار ہزار آدمی آباد ہوں گے ظاہرا ً وہ قریہ کبیرہ بحکمِ قصبہ ہو سکتاہے اور اس سے کم آبادی ہو تو وہ قریہ صغیرہ کہلائے گا۔"  

(کتاب الصلوۃ ،باب الجمعۃ ،  124/5،ط:دارالاشاعت)

وفیہ أیضاً:

"محققین کی تحقیق یہ ہے کہ جو قریہ مثل چھوٹے قصبہ کے ہو مثلاً تین چار ہزار آدمی اس میں آباد ہوں وہ قریہ کبیرہ ہے اور جو اس سے کم ہو وہ چھوٹا ہے۔"

(کتاب الصلوۃ ،1/ 294، ط:دارالاشاعت)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144501102397

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں