بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تین دفعہ تمہیں طلاق ہے کہنے کا حکم


سوال

میاں اور بیوی  دونوں عرصہ دراز سے depression اور Anxiety کے متاثرین ہیں ،نیند اور سکون کی ادویات کا استعمال کرتے ہیں، تقریباً چند ماہ قبل دونوں کے درمیان لڑائی جھگڑا اور تلخ کلامی ہوئی ،بیوی نے مایوسی کی حالت میں کہا: "مجھے طلاق دو یا قتل  کردو" ،خاوند (جو کہ تلخ کلامی کی وجہ سے شدید غصے میں تھا) نے بغیر سوچے سمجھے بیوی سے کہا :"تمہیں طلاق ہے"، بعد ازاں دونوں کے درمیان صلح ہو گئی تھی  ،اور رجوع کر لیا تھا ،اس ایک طلاق کے متعلق کسی عالمِ دین یا مفتی سے رجوع نہیں کیا گیا ،چند ماہ گزرے تھے کہ دو بارہ بحث و تکرار ہوئی اور بیوی نے دوبارہ جملہ دوہرایا کہ :"مجھے طلاق دو یا پھر میں عدالت سے رجوع کرکے خلع لے لوں گی" اور اس کے ساتھ انتہائی نا مناسب ، نازیبا جملہ کہا، جس پر خاوند شدید غصہ میں مغلوب العقل ہو گیا اور بغیر سوچے سمجھے دوسری اور پھر تیسری طلاق دے دی ۔دونوں مرتبہ جملہ طلاق  موبائل میسج کے ذریعے دیں ،ان تمام معاملات کے پیش ِنظر میاں  بیوی دونوں پریشان ہیں، اکٹھے زندگی گزار نے کا فیصلہ نہیں کر پا رہے ،لہذا آپ سے استدعاہے کہ دین ِمحمدی ،فقۂ حنفی کے تحت معاملہ پر کھا جائے تا کہ میاں  بیوی دینِ محمدی ،فقۂ حنفی کے تحت صلح  کر کے اپنی زندگی سکون سے گزار سکیں ۔

جواب

واضح رہے کہ غصہ کی حالت میں دی جانے والی طلاق واقع ہو جاتی ہے،لہذا صورتِ مسئولہ میں جب  مذکورہ شخص نے غصہ کی حالت میں اپنی بیوی کو یہ کہا کہ :"تمہیں طلاق ہے" اور پھر اس کے بعد رجوع کر لیا تھا، اس کے بعد پھر غصہ کی حالت میں دوسری اور تیسری طلاق بھی دے دی تو اس شخص کی بیوی پر مجموعی طور پر تین طلاقیں واقع ہو چکی ہیں ، اس کی بیوی اس پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہو چکی ہے، دونوں کا نکاح ختم ہوچکا ہے، اب رجوع بھی جائز نہیں اور  دوبارہ نکاح بھی نہیں ہو سکتا،  تین طلاق کے بعد دونوں کا ساتھ رہنا بالکل ناجائز اور حرام تھا، لہٰذا دونوں پر لازم ہے کہ فوراً علیحدہ ہوجائیں اور اتنے عرصے ساتھ رہنے کی وجہ سے حرام کاری کے جو مرتکب ہوئے ہیں اس پر اللہ تعالیٰ کے حضور خوب توبہ و استغفار کریں۔ 

تا ہم اگر بیوی  کسی دوسرے شخص سے  نکاح کرے اور اس سے جسمانی تعلق قائم ہو جائے ،پھر اس کے بعد وہ شوہر اس کو طلاق دے دے یا اس کا انتقال ہو جائے تو اس کی عدت گزار کر دوبارہ پہلے شوہر کے ساتھ نکاح ہو سکتا ہے۔

بدائع الصنائع فی ترتيب الشرائع میں ہے:

"وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضاً حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله عز وجل: {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجاً غيره}،وسواء طلقها ثلاثاً متفرقاً أو جملةً واحدةً".

(کتاب الطلاق، فصل في حكم الطلاق البائن، ج:3، ص:187، ط : سعید) 

صحيح البخاری میں ہے:

"باب من أجاز طلاق الثلاث؛ لقول الله تعالى: ﴿الطلاق مرتان فإمساك بمعروف أو تسريح بإحسان﴾  ... حدثنا سعيد بن عفير، قال: حدثني الليث، قال[ص:43]: حدثني عقيل، عن ابن شهاب، قال: أخبرني عروة بن الزبير، أن عائشة، أخبرته: أن امرأة رفاعة القرظي جاءت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله، إن رفاعة طلقني فبت طلاقي، وإني نكحت بعده عبد الرحمن بن الزبير القرظي، وإنما معه مثل الهدبة، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لعلك تريدين أن ترجعي إلى رفاعة؟ لا، حتى يذوق عسيلتك وتذوقي عسيلته.

حدثني محمد بن بشار، حدثنا يحيى، عن عبيد الله، قال: حدثني القاسم بن محمد، عن عائشة، أن رجلا طلق امرأته ثلاثاً، فتزوجت فطلق، فسئل النبي صلى الله عليه وسلم: أتحل للأول؟ قال: «لا، حتى يذوق عسيلتها كما ذاق الأول".

(کتاب الطلاق، باب من أجاز الطلاق الثلاث، ج:2، ص:299، رقم : 5261، ط: رحمانیه)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100544

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں