بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شرکاءِ قربانی کا ایک شریک کو قربانی اور گوشت کی تقسیم کا وکیل بنانا


سوال

اگر تین بھائی مل کر قربانی کریں اور سب کے حصے برابر نہ ہوں اور کسی کے پیسے بھی ایک حصہ سے کم ہوں, اور تین بھائی قربانی کے گوشت کو بھی برابر تقسیم کرنا چاہتے ہوں تو  کیا اس میں یہ صورت جائز ہے کہ ایک بھائی کو سارے پیسوں کا مالک بنا دیا جاۓ اور اسے اختیار دیا جاۓ کہ وہ سب کی طرف سے قربانی کردے اور اپنے اختیار سے برابر گوشت تقسیم کردے؟ 

جواب

یہ صورت جائز ہے، البتہ جب قربانی ہوجائے تو  گوشت کسی ایک بھائی کو (خواہ اسی بھائی کو جسے پہلے رقم کا مالک بنایا گیا) سب ہدیہ کردیں اور جسے ہدیہ کیاجائے، وہ پھر چاہے تو برابر برابر تقسیم کردے۔

اور اگر تینوں بھائی باہمی رضامندی سے گوشت تقسیم کیے بغیر  گھر میں مشترکہ طور پر استعمال کرتے رہیں تو  یہ بھی جائز ہے۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 70):

"ولايجوز بعير واحد ولا بقرة واحدة عن أكثر من سبعة، ويجوز ذلك عن سبعة أو أقل من ذلك، وهذا قول عامة العلماء.

وقال مالك - رحمه الله -: يجزي ذلك عن أهل بيت واحد - وإن زادوا على سبعة -، ولا يجزي عن أهل بيتين - وإن كانوا أقل من سبعة -، والصحيح قول العامة؛ لما روي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم : «البدنة تجزي عن سبعة والبقرة تجزي عن سبعة»۔ وعن جابر - رضي الله عنه - قال: «نحرنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم البدنة عن سبعة والبقرة عن سبعة»، من غير فصل بين أهل بيت وبيتين؛ ولأن القياس يأبى جوازها عن أكثر من واحد؛ لما ذكرنا أن القربة في الذبح وأنه فعل واحد لا يتجزأ ؛ لكنا تركنا القياس بالخبر المقتضي ؛ للجواز عن سبعة مطلقاً، فيعمل بالقياس فيما وراءه ؛ لأن البقرة بمنزلة سبع شياه، ثم جازت التضحية بسبع شياه عن سبعة سواء كانوا من أهل بيت أو ،بيتين فكذا البقرة ... ولا شك في جواز بدنة أو بقرة عن أقل من سبعة بأن اشترك اثنان أو ثلاثة أو أربعة أو خمسة أو ستة في بدنة أو بقرة؛ لأنه لما جاز السبع فالزيادة أولى، وسواء اتفقت الأنصباء في القدر أو اختلفت؛ بأن يكون لأحدهم النصف وللآخر الثلث ولآخر السدس بعد أن لا ينقص عن السبع، ولو اشترك سبعة في خمس بقرات أو في أكثر فذبحوها أجزأهم ؛ لأن لكل واحد منهم في كل بقرة سبعها، ولو ضحوا ببقرة واحدة أجزأهم فالأكثر أولى، ولو اشترك ثمانية في سبع بقرات لم يجزهم؛ لأن كل بقرة بينهم على ثمانية أسهم فيكون لكل واحد منهم أنقص من السبع، وكذلك إذا كانوا عشرة أو أكثر فهو على هذا". فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144112200119

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں