میری تین لڑکیاں ہیں، چھوٹی بیٹی 18 مہینے کی ہے اورپھر حمل ٹھہر گیا، اب شرعی اعتبار سے کیا کرنا چاہیے ؟
اگر حمل سے عورت کی جان کو خطرہ ہو یا کسی شدید مضرت کا اندیشہ ہو ، یا حمل سے عورت کا دودھ بند ہوجائے جس سے پہلے بچہ کو نقصان ہو اور کوئی تجربہ کار مستند مسلمان ڈاکٹر اس کی تصدیق کرتا ہے تو اس جیسے اعذار کی بنا پر حمل میں روح پڑجانے سے پہلے پہلے (جس کی مدت تقریباً چار ماہ ہے) اسے ساقط کرنے کی گنجائش ہوگی، اور چار ماہ کے بعد کسی صورت میں اسقاط حمل جائزنہیں ہے، اور شدید عذر نہ ہو تو پھر حمل کو ساقط کرنا کسی بھی وقت جائز نہیں، بلکہ گناہ ہے؛ لہٰذا اگر آپ کو مذکورہ اعذار میں سے کوئی عذر لاحق نہیں ہے تو حمل ساقط کرنا درست نہیں ہوگا۔
الموسوعة الفقهیة الکویتیة (۳۰/ ۲۸۵):
"وذهب الحنفیة إلی إباحة إسقاط العلقة حیث أنهم یقولون بإباحة إسقاط الحمل ما لم یتخلق منه شيء ولم یتم التخلق إلا بعد مائة وعشرین یوماً، قال ابن عابدین: وإطلاقهم یفید عدم توقف جواز إسقاطها قبل المدة المذکورة علی إذن الزوج، وکان الفقیه علي بن موسی الحنفي یقول: إنه یکره فإن الماء بعد ما وقع في الرحم مآله الحیاة، فیکون له حکم الحیاة کما في بیضة صید الحرم، قال ابن وهبان: فإباحة الإسقاط محمولة علی حالة العذر أو أنها لا تأثم إثم القتل".
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144205201425
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن