بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تین بیٹیاں اور ایک بہن اور پانچ بھتیجے چھوڑے تو بھتیجے محروم ہوں گے


سوال

وراثت کے سلسلے میں شرعی راہنمائی فرمائیں:

میرے ماموں کا انتقال ہو گیا ہے، ماموں کی تین بیٹیاں حیات ہیں، بیٹا کوئی نہیں ہے، ماموں کے والدین اور اہلیہ بھی ان سے پہلے فوت ہو چکے ہیں۔

 ماموں کے کل تین بھائی اوردو بہنیں تھیں ان میں سے تین بھائیوں اور ایک بہن کا انتقال ماموں کی حیات میں ہی ہو چکا تھا، اب صرف ایک بہن ( میری والدہ) حیات ہیں، نیز ماموں کے تین بھائیوں کے ٹوٹل پانچ بیٹے حیات ہیں، یعنی ماموں کے پانچ بھتیجے  حیات ہیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کے مرحوم ماموں کی میراث تقسیم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے مرحوم کے کل ترکہ منقولہ وغیرِ منقولہ  سے ان کے کفن دفن کا خرچہ نکالا جائے، پھر اگر مرحوم پر کوئی قرض ہو تو ترکہ سے اسے ادا کیا جائے، اس کے  اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو باقی ترکہ کے ایک تہائی میں اسے نافذ کیا جائے اس کے بعد جو مال بچ جائےاس کے9 حصے کر کے مرحوم کی ہر بیٹی کو 2،2 حصے اور مرحوم کی بہن یعنی سائل کی والدہ کو 3 حصہ دیے جائیں۔

میت---مسئلہ:3/ 9

بیٹیبیٹیبیٹیبہن
21
2223

یعنی قابلِ تقسیم ترکہ کا 22.22 فیصد مرحوم کی ہر بیٹی کو اور 33.33 فیصد مرحوم کی بہن کو  ملے گا۔

فتاوى ہندیہ  میں ہے: 

"إذا اجتمعت العصبات بعضها عصبة بنفسها وبعضها عصبة بغيرها وبعضها عصبة مع غيرها فالترجيح منها بالقرب إلى الميت لا بكونها عصبة بنفسها، حتى أن العصبة مع غيرها إذا كانت أقرب إلى الميت من العصبة بنفسها كانت العصبة مع غيرها أولى. بيانه إذا هلك الرجل وترك بنتا وأختا لأب وأم وابن أخ لأب فنصف الميراث للبنت والنصف للأخت ولا شيء لابن الأخ؛ لأن الأخت صارت عصبة مع البنت وهي إلى الميت أقرب من ابن الأخ".

(كتاب الفرائض،الباب الثالث في العصبات،6/ 452، ط:رشيدية)

الدر المختار مع حاشیہ ابن عابدین میں ہے:

"ثم شرع في العصبة مع غيره فقال (ومع غيره الأخوات مع البنات) أو بنات الابن لقول الفرضيين اجعلوا الأخوات مع البنات عصبة والمراد من الجمعين هنا الجنس".

وفی الرد:

"(قوله: لقول الفرضيين إلخ) جعله في السراجية وغيرها حديثا قال في سكب الأنهر: ولم أقف على من خرجه، لكن أصله ثابت بخبر ابن مسعود - رضي الله عنه - وهو ما رواه البخاري وغيره في بنت وبنت ابن وأخت للبنت النصف، ولبنت الابن السدس، وما بقي فللأخت وجعله ابن الهائم في فصوله من قول الفرضيين وتبعه شراحها كالقاضي زكريا وسبط المارديني وغيرهما اهـ".

(‌‌كتاب الفرائض،فصل في العصبات،6/ 776، ط:سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144305100535

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں