ایک آدمی فوت ہوا، اس کے کوئی بیوی بچے نہیں ہیں، اس کے دو بھائی تھے جو کہ فوت ہوچکے ہیں، البتہ ان بھائیوں کی اولادیں ہیں اور تین بہنیں ہیں جو کہ حیات ہیں، اور مرحوم بھائیوں میں سے ایک کے چار بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں اور دوسرے بھائی کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے، اب اس آدمی کی وراثت کیسے تقسیم ہوگی؟
صورتِ مسئولہ میں اگر واقعتاً مرحوم کے صرف یہی ورثاء ہیں تو ان کے درمیان مرحوم کے ترکہ کی تقسیم کا طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے مرحوم کے حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین کے اخراجات ادا کرنے کے بعد ، اور اگر مرحوم پر کوئی قرض ہو تو کُل مال میں سے اُس کی ادا ئیگی کے بعد اور اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اس کوباقی مال کے ایک تہائی سے نافذ کرنے کے بعد بقیہ تمام تر منقولہ و غیرمنقولہ ترکہ کو 45 حصوں میں تقسیم کرکے مرحوم کی تینوں بہنوں میں سے ہر ایک کو 10،10 حصے اور پانچوں بھتیجوں میں سے ہر ایک کو 3،3 حصے ملیں گے۔
صورتِ تقسیم یہ ہے:
میت:3/ 45
بہن | بہن | بہن | بھتیجا | بھتیجا | بھتیجا | بھتیجا | بھتیجا |
2 | 1 | ||||||
10 | 10 | 10 | 3 | 3 | 3 | 3 | 3 |
یعنی 100 فیصد میں سے 22.22 فیصد کر کے تینوں بہنوں میں سے ہر ایک کو اور 6.66 فیصد کر کے پانچوں بھتیجوں میں سے ہر ایک کو ملیں گے۔
نوٹ: مرحوم کی بھتیجیوں کو مرحوم کے ترکہ میں سے کوئی حصہ نہیں ملے گا۔
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"الأخوات لأب وأم للواحدة النصف وللثنتين فصاعدا الثلثان."
(كتاب الفرائض، الباب الثاني في ذوي الفروض، ج:٦، ص:٤٤٧، ط:رشيدية)
وفیہ ایضاً:
"فالعصبة نوعان: نسبية وسببية، فالنسبية ثلاثة أنواع: عصبة بنفسه وهو كل ذكر لا يدخل في نسبته إلى الميت أنثى وهم أربعة أصناف: جزء الميت وأصله وجزء أبيه وجزء جده، كذا في التبيين فأقرب العصبات الابن ثم ابن الابن وإن سفل ثم الأب ثم الجد أب الأب وإن علا، ثم الأخ لأب وأم، ثم الأخ لأب ثم ابن الأخ لأب وأم، ثم ابن الأخ لأب ثم العم لأب وأم ثم العم لأب ثم ابن العم لأب وأم، ثم ابن العم لأب ثم عم الأب لأب وأم ثم عم الأب لأب ثم ابن عم الأب لأب وأم، ثم ابن عم الأب لأب ثم عم الجد، هكذا في المبسوط.)
(كتاب الفرائض، الباب الثالث في العصبات، ج:٦، ص:٤٥١، ط:رشيدية)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"قاله المصنف في شرحه قلت: وفي إطلاقه نظر ظاهر لتصريحهم بأن ابن الأخ لا يعصب أخته كالعم لا يعصب أخته وابن العم لا يعصب أخته وابن المعتق لا يعصب أخته بل المال للذكر دون الأنثى لأنها من ذوي الأرحام."
(كتاب الفرائض، فصل في العصبات، ج:٦، ص:٧٨٣، ط:سعيد)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144606101955
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن