بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تین بطن کا مناسخہ


سوال

میرے دادا کا انتقال ہوا، ورثاء میں صرف ایک بیٹا یعنی میرے والد اور ایک بیٹی یعنی میری پھوپھی تھی، دادا کے والدین اور بیوی کا انتقال ان کی زندگی میں ہوچکا تھا۔

پھر میرے والد کا انتقال ہوا، ورثاء میں صرف ہم چھ  بیٹے تھے، کوئی بیٹی  نہیں تھی،بیوی کا انتقال والد مرحوم کی زندگی میں ہوگیاتھا۔

پھر ایک بیٹے کا انتقال ہوا، اس کے ورثاء میں ایک بیوہ اور پانچ بھائی ہیں، کوئی اولاد نہیں ہے۔

ترکہ کی مالیت تقریباً تیس (30) لاکھ روپے ہے، ورثاء میں ہم پانچ بھائی، ایک پھوپھی اور مرحوم بھائی کی بیوہ یعنی بھابھی ہیں، ان کے درمیان دادا کے ترکہ کی تقسیم کس طرح ہوگی؟ اور اس میں میرا اور دوسرے بھائیوں کا، پھوپھی کا  اور  بھابھی کا کتنا کتنا حصہ بنتاہے؟تاکہ میں اسی حساب سے تقسیم کروں اور آخرت میں میرا کوئی مؤاخذاہ نہ ہو۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کے دادا کے ترکہ کی شرعی تقسیم کا طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے ترکہ میں سے مرحوم کے حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیز وتکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد، اگر مرحوم کے ذمہ کسی کا قرض ہو تو اس کی اس کی ادائیگی کے بعد اور اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو باقی ماندہ ترکہ کے ایک تہائی حصہ میں اسے نافذ کرنے کے بعد بقیہ ترکہ منقولہ وغیر منقولہ کو  180 حصوں میں تقسیم کرکے مرحوم دادا کی بیٹی یعنی سائل کی پھوپھی کو 60 حصے، دادا کے پوتے یعنی سائل سمیت پانچوں زندہ بھائیوں کو 23، 23 حصے اور   بھابھی یعنی مرحوم بھائی کی بیوہ کو 5 حصے ملیں گے۔

تقسیم کی صورت یہ ہے:

مرحوم دادا:3/ 9 / 180

بیٹابیٹی
21
فوت شد3
-60

مرحوم بیٹا (سائل کا والد):6 (3)۔۔۔۔۔۔مف:2 (1)

بیٹابیٹابیٹابیٹابیٹابیٹا
111111
فوت شد2020202020

مرحوم پوتا (یعنی سائل کا بھائی):4/ 20۔۔۔۔۔۔۔مف:1

بیوہبھائی بھائیبھائیبھائیبھائی
13
533333

یعنی فیصد کے اعتبار سے مرحوم کی بیٹی (سائل کی پھوپھی) کو 33.333 فیصد، مرحوم کے پانچ پوتے یعنی سائل سمیت پانچوں زندہ بھائیوں میں سے ہرایک کوکو12.777 فیصد اور بھائی یعنی مرحوم بھائی کی بیوہ کو 2.777 فیصد ملے گا۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408101606

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں