کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام حکومتی ٹھیکیداری کی ایک صورت کی شرعی حیثیت کے بارے میں.
تفصیل یہ ہے کہ حکومت جب کسی سرکاری کام مثلا سکول بنانا یا سڑک بنانا یا ہسپتال بنانے کی منظوری دےدے تو اس کام کو انجام دینے کیلئے حکومت اس کام کیلئے متعین بجٹ مقرر کر دیتی ہے مثلا اس کام کی تکمیل کیلئے دو کروڑ کی منظوری پیش کرتی ہیں،اس کے بعد اس کام کو ٹھیکداروں کے حوالے کر دیتے ہیں جس کے پاس ٹھیکہ حاصل کرنے کیلئے سرکاری لائسنس موجود ہو، وہ اس کام کے ٹھیکہ حاصل کرنے کا حق دار ہو گا، لہذا جس کسی کام کے ٹھیکہ حاصل کرنے کیلئے دس افراد نے مثلا لائسنس جمع کیا تو حکومت جس کو ٹھیکہ دینا چاہے دے دیتی ہے، باقی نو لائسنس والے اس ٹھیکہ سے محروم رہ جاتے ہیں، اب اصل مسئلہ یہ ہے کہ ٹھیکہ حاصل کرنے میں ایک مخصوص صورت ہے جسکو "رینگ" کہا جاتا ہے، رینگ سے مقصود یہ ہوتا ہے کہ جب دس آدمیوں نے مثلا ٹھیکہ حاصل کرنے کیلئے اپنا اپنا لائسنس جمع کیا وہ قانون کے مطابق ٹھیکہ حاصل کرنے کا حق دار متصور ہو گا، لیکن ان میں سے ایک آدمی باقیوں کو کہتا ہے کہ آپ سب اپنے اپنے لائسنس واپس لے کر ٹھیکہ سے دستبردار ہو جائیں تاکہ میں اکیلا خود اس کام کیلئے حق دار ٹھہروں، تو میں آپ میں سے ہر ایک کو مثلا دو دو لاکھ روپے اپنی طرف سے مقابلہ چھوڑنے کے عوض دیدونگا، یہ "رینگ" کی حقیقت ہے، تو کیا از روئے شرع اس قسم کی مزاحمت چھوڑنے اور لائسنس واپس لینے کےعوض پیسے لینا یا دینا جائز ہے یا نہیں ؟
صورتِ مسئولہ میں جس ٹھیکے دار کے پاس لائسنس موجود ہے ،سرکاری ٹھیکہ لینا اس کاحق ہے ، ایک ٹھیکےدار کا دوسرے ٹھیکےداروں کو اپنے اپنے لائسنس واپس لینے کے عوض پیسہ دینا اور دیگر ٹھیکےداروں کا رقم لینا دونوں ناجائز ہے ۔
در مختار میں ہے :
"و في الأشباه: لايجوز الإعتياض عن الحقوق المجردة كحق الشفعة وعلى هذا لايجوز الإعتياض عن الوظائف بالأوقاف."
(مطلب فی بیع الجامکیۃ،ج:4،ص:518،ط:سعید)
الأشباه النظائر میں ہے:
"الحقوق المجردة لا يجوز الاعتياض عنها كحق الشفعة وعلی هذا لا يجوز الاعتياض عن الوظائف في الأوقاف."
(کتاب البیوع،بيع المعدوم باطل إلا فيما يستجره الإنسان من البقال ،ص:178،ط:دارالکتب العالمیۃ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144401100752
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن