ٹیچرز ڈے پر اپنے اساتذہ کرام کو مبارک باد پیش کرنا اور ٹیچر ڈے کے متعلق کارڈ وغیرہ بنا کر دینا یا کوئی اور تحفہ دینا اسلام کے مطابق کیسا عمل ہے؟
واضح رہے کہ یوم اساتذہ (ٹیچرز ڈے) کی شرعاً کوئی حیثیت نہیں ہے، ٹیچرز دے کےکارڈ بنانا اوراساتذہ کو دینایہ غیروں کاطریقہ اختیار کرناہے اور اس میں اسراف پایاجاتاہے،اس لیے یہ ناجائز ہے،البتہ اساتذہ کا احترام اور مبارک باد دینایاتحائف ،ہدایا وغیرہ دینا ایک فطری اور جائز عمل ہے،لیکن اس کا اہتمام کسی وقت کی تعیین کے بغیرعمومی حالات میں ہونا چاہیے۔ ٹیچر ز ڈے یا کسی ایک دن کو اس کے لیے خاص کر لینا، یہ غیر مسلم قوموں کا طریقہ اور ان کی ثقافت ہے اور مسلمانوں کے لیےغیر مسلم قوموں کی ثقافت اور طریقوں کی پیروی کرنا ممنوع ہے ۔ اس لیےٹیچرز دےیا کسی دن کو خاص کرکے اس دن اس کا اہتمام کرلینے سے اجتناب کرنا چاہییے، کسی دن کو خاص اور اس کا التزام کیے بغیر اساتذہ کو ہدایا وغیرہ دیے جائےتو شرعاً اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
کنز العمال میں ہے:
"من كثر سواد قوم فهو منهم، ومن رضي عمل قوم كان شريكا في عمله". "الديلمي عن ابن مسعود."
(حرف الصاد، كتاب الصحبة، الباب الأول:في الترغيب فيها، رقم الحديث: 24735، ج: 9، ص: 22،ط: مؤسسة الرسالة)
ترجمہ:”حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث مبارک میں ہے کہ جو کسی قوم کی تعداد میں اضافہ کرتا ہے اس کا شمار اسی قوم کے ساتھ ہوگااور جو کسی قوم کے عمل سے راضی ہوگا وہ اس کے عمل میں شریک مانا جائے گا۔“
امداد الاحکام میں ہے :
"عادات میں مشابہت مثلاً جس ہیئت سے وہ کھانا کھاتے ہیں اسی ہیئت سے کھانا یا لباس ان کی وضع پر پہننا، اس کا حکم یہ ہے کہ اگر ہماری کوئی خاص وضع پہلے سے ہو اور کفار نے بھی اس کو اختیار کرلیا ہو، خواہ ہمارا اتباع کرتے ہوئے یا ویسے ہی، اس صورت میں یہ مشابہت اتفاقیہ ہے، اور اگر ہماری وضع پہلے سے جدا ہو اور اس کو چھوڑ کر ہم کفار کی وضع اختیار کریں، یہ ناجائز ہے۔ اگر ان کی مشابہت کا قصد بھی ہے تب تو کراہت تحریمی ہے اور اگر مشابہت کا قصد نہیں ہے بلکہ اس لباس و وضع کو کسی اور مصلحت سے اختیار کیا گیا ہے تو اس صورت میں تشبہ کا گناہ نہ ہوگا، مگر چونکہ تشبہ کی صورت ہے اس لیے کراہت تنزیہی سے خالی نہیں۔۔۔۔
مگر چونکہ آج کل عوام جواز کے لیے بہانے ڈھونڈتے ہیں، ان کا قصد تشبہ ہی کا ہوتا ہے اس لیے اکثر احتیاط کے لیے عادات میں بھی تشبہ سے منع کیا جاتا ہے، خواہ تشبہ کا قصد ہو یا نہ ہو۔"
(ج:1 ،ص، 286، مکتبہ :دار العلوم کراچی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144604100104
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن