بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ٹیکنو جیم (techno gym ) کمپنی میں کام کا حکم


سوال

Technogym نامی کمپنی ہے، جس میں 650یا2700روپے  سے کوئی سامان خریدلیا جاتا ہے،پھر روزانہ اسی سامان پر کلک کرنے سے 27روپے  ملتے ہیں ،اسی طرح کمپنی ایک کوڈ بھیجتی رہتی ہے، اس کوڈ کو استعمال کرنے کی صورت میں کچھ روپے ملتے رہتے ہیں، کیا یہ رقم حلال ہے یا حرام؟اس کمپنی میں  پیسہ لگاکر شامل ہونا کیسا ہے ؟اور کسی دوسرے کوشامل کرنے پر  مزید کمیشن ملتاہے اس کا کیا حکم ہے  ؟برائے کرم جواب جلد ارسال فرمائیں ۔

جواب

صورت ِ مسئولہ میں مذکورہ کمپنی میں پیسہ لگانا درج ذیل وجوہات کی بناء پر شرعاً جائز نہیں :

خرید وفروخت کے جائز ہونے کے لیے ضروری ہے کہ جس چیز کو خریدا جارہا ہے اس کا خارج میں وجود  موجود ہو،فرضی چیز نہ ہو  ،عام طور پر مذکورہ کمپنی کی طرح  کی کمپنیوں میں جس سامان کو خریدا جاتا ہے اس کا خارج میں کوئی وجود نہیں ہوتا ، بلکہ صرف اس کی تصویر دکھا کر خریدوفروخت کی جاتی ہے جو کہ شرعا ً جائز نہیں ،اور پھر خریدنے کے بعد اس سامان پر کلک کرنے سے  پیسے ملتے ہیں  اور کلک کرنا کوئی ایسا عمل نہیں جس پر پیسہ لینا شرعاً جائز ہو  ۔البتہ اگر مذکورہ کمپنی میں سامان حقیقت میں(خارج میں اس کا وجود بھی ہو )  فروخت کیا جاتا ہو    اور بعد ازاں کمپنی کی طرف سے خریدار کو اس چیز کی ڈیلیوری یعنی قبضہ بھی دیا جاتا ہو  تو نفس خرید وفروخت درست ہوگی ؛لیکن دیگر خرابیوں کی وجہ سے اس کمپنی میں کا م کرنا جائز نہیں ہوگا ۔

نیز مذکورہ   کمپنی کا کمیشن  کاکام کرنا  چاہے وہ بلاواسطہ کمیشن کا کام ہو یا بالواسطہ ہو کہ ایک شخص دوسرے کو اس کمپنی میں رقم شامل کرنے پرتیار کرلے اور جب وہ شخص رقم شامل کردے تو اس رقم سے پہلے شخص اور اسی طرح دیگر کو اس میں سے کمیشن دے دیاجائے اور ہر رقم شامل ہونے کے بعد اس کو پہلے والوں میں تقسیم کردیاجائے تواس طرح کام کرنا   اور کمیشن لینا بھی شرعاً درست نہیں ۔

لہذا ٹیکنو جیم نامی کمپنی میں انویسمنٹ کرنا اور اس سے پیسہ کمانا شرعاً جائز نہیں ۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"ومنها في المبيع وهو أن يكون موجودا فلا ينعقد بيع المعدوم وما له خطر العدم كبيع نتاج النتاج والحمل كذا في البدائع."

(کتاب البیوع ،الباب الاول  فی تفسیر البیع ،ج:3،ص:2،دارالفکر)

حدیث میں ہے :

"عن سعيد بن عمير الأنصاري قال: سئل رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أيُّ الكسب أطيب؟قال: "عمل الرجل بيده، وكلّ بيعٍ مبرورٍ".

(شعب الایمان،باب التوکل باللہ عزوجل ،ج:2،ص:434،مکتبۃ الرشد)

الکاشف عن حقائق السنن میں ہے :

"قوله: (مبرور) أي مقبول في الشرع بأن لا يكون فاسدًا، أو عند الله بأن يكون مثابًا به".

(کتاب البیوع،باب الکسب وطلب الحلال،ج:7،ص:2112،مکتبۃ نزار)

فتاوی شامی میں ہے :

"و الأجرة إنما تكون ‌في ‌مقابلة ‌العمل."

(کتاب النکاح ،باب المہر،ج:3،ص:156،سعید)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144507101205

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں