1) ایک مسئلہ پر آپ کی رہنمائی کی اشد ضرورت ہے کہ دی نالج چشتیاں ضلع بہاول نگر (پنجاب) ایک عصری تعلیمی ادارہ ہے جس میں کسی بھی ٹیچر کے تقرری کے وقت کچھ ضروری قواعد و ضوابط کے مطابق باہمی معاہدہ طے کیا جاتا ہےان قواعد وضوابط کی کاپی منسلک ہے، اب یہ معاہدہ شریعت کے مطابق درست ہے یا نہیں؟
برئے مہربانی ان قواعد و ضوابط میں غور وفکر فرما کر شرعی مسئلہ سے آگاہ فرمائیں، نیز اگر کوئی ضابطہ خلاف شرع ہے تو اس کے متبادل کی طرف بھی رہنمائی فرمائیں۔
2) ٹیچر تقرری کے بعدجن شرائط کے مطابق اس نے اپنی ذمہ داری پوری کرنی ہے ان شرائط اور قواعد و ضوابط کی کاپی بھی منسلک ہے اس پر بھی غور و فکر فرما کر شرعی مسئلہ سے آگاہی فرمادیں،نیز خلاف شرع شرائط کا متبادل بھی تحریر فرما دیں۔
1- صورت مسئولہ میں اساتذہ کی تقرری کے وقت جو معاہدہ کیا جاتا ہے اس میں شرعی طور پر درج ذیل قباحتیں موجود ہیں:
حاصل یہ ہے کہ مذکورہ معاہدہ میں اسکول انتظامیہ نے اپنے حقوق کے تحفظ کو تو پیش نظر رکھا ہے لیکن امیدواروں کے حقوق کی رعایت نہیں کی ہے، اسکول انتظامیہ کو ایسا معاہدہ ترتیب دینا چاہیے جس میں شرعی حدود و قیود کی رعایت رکھتے ہوئے جانبین کے حقوق کا لحاظ رکھا گیا ہو۔
2-تقرر کے بعد استاد کی ذمہ داریوں پر مشتمل قواعد و ضوبط میں شرعی نقطہ نظر سے یہ بات ملحوظ رہے کہ مذکورہ اسکول کے اساتذہ چونکہ مقررہ وقت کے پابند ہوتے ہیں اس لیے ان اساتذہ کی حیثیت فقہی طور پر اجیرِ خاص کی ہے اور اجیرِ خاص مقررہ وقت میں حاضر رہنے سے اجرت کا مستحق بن جاتا ہے ، لہذا جس قدر وقت کوئی استاد اسکول کو دے گا ادارے پراتنے وقت کی تنخواہ لازم ہوجائے گی اور ادارے کو اس میں کسی قسم کی کٹوتی کا اختیار نہیں ہوگا۔
مذکورہ تفصیل سے یہ بات واضح ہو گئی کہ قواعد و ضوابط کی شق نمبر (7) میں تین مرتبہ تاخیر سے آنے کواور دو مرتبہ مختصر رخصت کو پورے ایک دن کی رخصت شمار کرنا جائزنہیں ہے، البتہ یہ قانون بنایا جا سکتا ہے کہ اساتذہ کی تنخواہ کو ان کے اوقات ملازمت پر تقسیم کر دیا جائے اور پھر جو استاد جتنی تاخیر کرے اس کے برابر اس کی تنخواہ سے کٹوتی کر دی جائے۔
اسی طرح شق نمبر(6) کے مطابق رخصت کے دو دنوں کے درمیان آنے والے چھٹی کے دن کو رخصت شمار کرنا بھی درست نہیں ہے، بلکہ جتنے دنوں کی رخصت استاد لے اتنے ہی دن کی رخصت میں شمار کی جائے اور جس دن اسکول بند رہے اسے رخصت میں شمار نہ کیا جائے۔
بدائع الصنائع میں ہے:
«وأما صفة الإجارة فالإجارة عقد لازم إذا وقعت صحيحة عرية عن خيار الشرط والعيب والرؤية عند عامة العلماء، فلا تفسخ من غير عذر»
(كتاب الإجارة،فصل:وأما صفة الإجارة4/ 201،ط:سعید)
وفیہ ایضاً:
«فالحاصل أن الأجرة لا تملك عندنا إلا بأحد معان ثلاثة: أحدها: شرط التعجيل في نفس العقد، والثاني: التعجيل من غير شرط: والثالث: استيفاء المعقود عليه»
(أيضاً،فصل:وأما حكم الإجارة،4/ 202)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
«ولو شرط ثلاثة فسكن في مدة الخيار سقط الخيار ولو انهدم المنزل بالسكنى لا ضمان لأنه سكن بحكم الإجارة وأول المدة من وقت سقوط الخيار. كذا في الوجيز للكردري»
(كتاب الإجارة،الباب الخامس في الخيار في الإجارة والشرط فيها4/ 419،ط:رشيدية)
وفیہ ایضاً:
«وإذا تحقق العذر ومست الحاجة إلى النقض هل يتفرد صاحب العذر بالنقض أو يحتاج إلى القضاء أو الرضاء اختلفت الروايات فيه والصحيح أن العذر إذا كان ظاهرا يتفرد، وإن كان مشتبها لا يتفرد. كذا في فتاوى قاضي خان»
(أيضاً،الباب التاسع عشر في فسخ الإجارة بالعذر4/ 458)
وفیہ ایضاً:
«وإذا أراد أن ينتقل إلى حرفة أخرى مثل أن يترك التجارة ويأخذ في الزراعة أو استأجر أرضا للزراعة فتركها وأخذ في التجارة فهو عذر. كذا في البدائع...استأجر حانوتا ليعمل فيه عملا ثم أراد أن يتحول عن تلك الصنعة إلى صنعة أخرى فإن تهيأ له أن يعمل الصنعة الثانية في ذلك الحانوت ليس له النقض وإلا فله النقض لأنه تحقق العذر. كذا في الكبرى»
(أيضاً، 4/ 459)
وفیہ ایضاً:
«إذا استأجر أستاذا ليعلمه هذا العمل في هذه السنة فمضى نصف السنة فلم يعلمه شيئا فللمستأجر أن يفسخ. ما رأيت رواية في هذا لكن أفتى الشيخ الإمام علي الإسبيجابي فأفتيت أنا أيضا. كذا في الصغرى»
(أيضاً،4/ 461)
الدر المختار مع حاشیہ ابن عابدین میں ہے:
"(لا بأخذ مال في المذهب) بحر. وفيه عن البزازية: وقيل يجوز، ومعناه أن يمسكه مدة لينزجر ثم يعيده له، فإن أيس من توبته صرفه إلى ما يرى. وفي المجتبى أنه كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ.»
(قوله وفيه إلخ) أي في البحر، حيث قال: وأفاد في البزازية أن معنى التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عنه مدة لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه، لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي.
وفي المجتبى لم يذكر كيفية الأخذ وأرى أن يأخذها فيمسكها، فإن أيس من توبته يصرفها إلى ما يرى. وفي شرح الآثار: التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. اهـ".
(كتاب الحدود،باب التعزير،مطلب في التعزير بأخذ المال4/ 61،ط:سعید)
وفیہ ایضاً:
"(والثاني) وهو الأجير (الخاص) ويسمى أجير وحد (وهو من يعمل لواحد عملا مؤقتا بالتخصيص ويستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة وإن لم يعمل".
(كتاب الإجارة،باب ضمان الأجير6/ 69،ایضاً)
البحر الرائق میں ہے:
"وفي شرح الآثار: التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال".
(كتاب الحدود،فصل فی التعزیر،5/41، ط: دار الكتاب الإسلامي)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144303100340
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن