بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اساتذہ کے تقرر کے وقت طے کیا جانے والے معاہدے کا شرعی تجزیہ


سوال

1) ایک مسئلہ پر آپ کی رہنمائی کی اشد ضرورت ہے کہ دی نالج چشتیاں ضلع بہاول نگر (پنجاب) ایک عصری تعلیمی ادارہ ہے جس میں کسی بھی ٹیچر کے تقرری کے وقت کچھ ضروری قواعد و ضوابط کے مطابق باہمی معاہدہ طے کیا جاتا ہےان قواعد وضوابط کی کاپی منسلک ہے، اب یہ معاہدہ شریعت کے مطابق درست ہے یا نہیں؟

برئے مہربانی ان قواعد و ضوابط میں غور وفکر فرما کر شرعی مسئلہ سے آگاہ فرمائیں، نیز اگر کوئی ضابطہ خلاف شرع ہے تو اس کے متبادل کی طرف بھی رہنمائی فرمائیں۔

2) ٹیچر تقرری کے بعدجن شرائط کے مطابق اس نے اپنی ذمہ داری پوری کرنی ہے ان شرائط اور قواعد و ضوابط کی کاپی بھی منسلک ہے اس پر  بھی غور و فکر فرما کر شرعی مسئلہ سے آگاہی فرمادیں،نیز خلاف شرع شرائط کا متبادل بھی تحریر فرما دیں۔

جواب

1- صورت مسئولہ میں  اساتذہ کی تقرری کے وقت جو معاہدہ کیا جاتا ہے اس میں شرعی طور پر درج ذیل قباحتیں موجود ہیں:

  1.    اساتذہ کے ساتھ دو سال کا معاہدہ کرنے  اور ان کو دو سال کی مدت تک پابند بنانے کے بعدشق نمبر (2) میں بغیر کسی عذر کی وضاحت کے  اسکول انتظامیہ کا یہ کہنا غلط ہے  کہ اساتذہ کی ملازمت قابلِ فسخ ہوگی یعنی اسکول انتظامیہ  ایک ماہ قبل نوٹس دے کر کسی بھی استاد کو ملازمت سے فارغ کرنے کی مجاز ہوگی، بلکہ شرعی طور پر جب اجارہ  کا  معاہدہ طے پا جائے تو پھر اس کو بغیر عذر کے ختم نہیں کیا جا سکتا، لہذا تقرری فارم میں اس بات کی وضاحت کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر کوئی شرعی اور معقول عذر ہو مثلاً تعلیمی سال کا قابل ذکر وقت گذر چکا ہو اور استاد نے  مقررہ نصاب  طلباء کو نہ پڑھایا ہو یا  نصاب کا معمولی حصہ پڑھایا ہوتو اسکول انتظامیہ استاد کو مقررہ مدت مکمل ہونے سے پہلے ملازمت سے فارغ کرنے کی مجاز ہوگی۔
  2.  جب استاد پورے مہینہ اپنی ذمہ داریاں انجام دے دے تو اسکول انتظامیہ پر اس کی تخواہ ادا کرنا لازم ہے ،  شق نمبر (3)  میں ذکر کردہ طریقہ کے مطابق  ابتداء میں "سیکیورٹی" کے نام سے ایک ماہ  کی تنخواہ روکنا جائز نہیں ہے، سنن ابن ماجہ میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد منقول ہے کہ اجیر (ملازم) کو  اس کی اجرت اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کرو۔
  3.  شق نمبر  (4) میں ملازمین کو دو سال کے معاہدے کا پابند بنایا گیا ہے  جبکہ شق نمبر (7) میں شادی اور سرکاری ملازمت کو دو سالہ معاہدے کی پابندی سے مستثنیٰ کیا گیا ہے، اسی طرح شق نمبر   (6) میں کہا گیا ہے کہ استاد پر  بہر صورت تعلیمی سال  مکمل کرنا لازم ہے جب کہ شرعی طور پر شادی اور سرکاری ملازمت مل جانے کے علاوہ دیگر اعذار کی بنا پر بھی اجیر کے لیے  مدت اجارہ پوری ہونے سے پہلے اجارہ کے عقد کو ختم کرنے کی اجازت ہوتی ہے ، لہذا معاہدہ میں اس بات کا اضافہ کرنا ضروری ہے کہ اگر ملازم کو کوئی ایسا شدید عذر پیش آجائے کہ اس کے لیے ملازمت کو جاری رکھنے میں حرج ہو تو ایسی صورت میں سال کے درمیان بھی  اسے ملازمت چھوڑنے کا حق ہے اور ایسی صورت میں اسکول انتظامیہ اس کے حقوقِ واجبہ میں کسی قسم کی کٹوتی نہیں کرے گی۔
  4. مالی جرمانہ لگانا شرعاً ناجائز ہے لہذا شق نمبر (4) میں مالی جرمانہ کی شرط لگانا بھی خلاف شرع ہے۔

حاصل یہ ہے کہ مذکورہ معاہدہ میں اسکول انتظامیہ نے اپنے حقوق کے تحفظ کو تو پیش نظر رکھا ہے لیکن امیدواروں کے حقوق کی رعایت نہیں کی ہے، اسکول انتظامیہ کو ایسا معاہدہ ترتیب دینا چاہیے جس میں  شرعی حدود و قیود کی رعایت رکھتے ہوئے جانبین کے حقوق کا لحاظ رکھا گیا ہو۔

2-تقرر کے بعد استاد کی ذمہ داریوں پر مشتمل قواعد و ضوبط میں شرعی نقطہ نظر سے یہ بات ملحوظ رہے کہ مذکورہ اسکول کے اساتذہ  چونکہ مقررہ وقت کے پابند ہوتے ہیں اس لیے ان اساتذہ کی حیثیت  فقہی طور پر اجیرِ خاص کی ہے اور اجیرِ خاص مقررہ وقت میں حاضر رہنے سے اجرت کا مستحق بن جاتا ہے ، لہذا جس قدر  وقت کوئی استاد  اسکول کو دے گا ادارے پراتنے وقت کی تنخواہ لازم ہوجائے گی اور ادارے کو  اس میں کسی قسم کی کٹوتی کا اختیار نہیں ہوگا۔

مذکورہ تفصیل سے یہ بات واضح ہو گئی کہ قواعد و ضوابط کی شق نمبر (7) میں تین مرتبہ تاخیر سے آنے کواور دو مرتبہ مختصر رخصت کو   پورے ایک دن کی رخصت شمار  کرنا جائزنہیں ہے، البتہ  یہ قانون بنایا جا سکتا ہے کہ اساتذہ کی تنخواہ کو ان کے اوقات ملازمت پر تقسیم کر دیا جائے اور پھر جو استاد جتنی تاخیر کرے اس کے برابر اس کی تنخواہ سے کٹوتی کر دی جائے۔

اسی طرح شق نمبر(6) کے مطابق رخصت کے دو دنوں کے درمیان آنے والے چھٹی کے دن کو رخصت شمار کرنا بھی درست نہیں ہے، بلکہ جتنے دنوں کی رخصت استاد لے  اتنے ہی دن کی رخصت میں شمار کی جائے اور جس دن اسکول بند رہے اسے رخصت میں شمار نہ کیا جائے۔

بدائع الصنائع میں ہے:  

«وأما صفة الإجارة فالإجارة عقد لازم إذا وقعت صحيحة عرية عن خيار الشرط والعيب والرؤية عند عامة العلماء، فلا تفسخ من غير عذر»

(كتاب الإجارة،فصل:وأما صفة الإجارة4/ 201،ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

«فالحاصل أن الأجرة لا تملك عندنا إلا بأحد معان ثلاثة: أحدها: شرط التعجيل في نفس العقد، والثاني: التعجيل من غير شرط: والثالث: استيفاء المعقود عليه»

(أيضاً،فصل:وأما حكم الإجارة،4/ 202)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

«ولو شرط ثلاثة فسكن في مدة الخيار سقط الخيار ولو انهدم المنزل بالسكنى لا ضمان لأنه سكن بحكم الإجارة وأول المدة من وقت سقوط الخيار. كذا في الوجيز للكردري»

(كتاب الإجارة،الباب الخامس في الخيار في الإجارة والشرط فيها4/ 419،ط:رشيدية)

وفیہ ایضاً:

«وإذا تحقق العذر ومست الحاجة إلى النقض هل يتفرد صاحب العذر بالنقض أو يحتاج إلى القضاء أو الرضاء اختلفت الروايات فيه والصحيح أن العذر إذا كان ظاهرا يتفرد، وإن كان مشتبها لا يتفرد. كذا في فتاوى قاضي خان»

(أيضاً،الباب التاسع عشر في فسخ الإجارة بالعذر4/ 458)

وفیہ ایضاً: 

«وإذا أراد أن ينتقل إلى حرفة أخرى مثل أن يترك التجارة ويأخذ في الزراعة أو استأجر أرضا للزراعة فتركها وأخذ في التجارة فهو عذر. كذا في البدائع...استأجر حانوتا ليعمل فيه عملا ثم أراد أن يتحول عن تلك الصنعة إلى صنعة أخرى فإن تهيأ له أن يعمل الصنعة الثانية في ذلك الحانوت ليس له النقض وإلا فله النقض لأنه تحقق العذر. كذا في الكبرى»

(أيضاً، 4/ 459)

وفیہ ایضاً:

«إذا استأجر أستاذا ليعلمه هذا العمل في هذه السنة فمضى نصف السنة فلم يعلمه شيئا فللمستأجر أن يفسخ. ما رأيت رواية في هذا لكن أفتى الشيخ الإمام علي الإسبيجابي فأفتيت أنا أيضا. كذا في الصغرى»

(أيضاً،4/ 461)

الدر المختار مع حاشیہ ابن عابدین میں ہے:  

"(لا بأخذ مال في المذهب) بحر. وفيه عن البزازية: وقيل يجوز، ومعناه أن يمسكه مدة لينزجر ثم يعيده له، فإن أيس من توبته صرفه إلى ما يرى. وفي المجتبى أنه كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ.»

 (قوله وفيه إلخ) أي في البحر، حيث قال: وأفاد في البزازية أن معنى التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عنه مدة لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه، لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي.

وفي المجتبى لم يذكر كيفية الأخذ وأرى أن يأخذها فيمسكها، فإن أيس من توبته يصرفها إلى ما يرى. وفي شرح الآثار: التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. اهـ".

(كتاب الحدود،‌‌باب التعزير،مطلب في التعزير بأخذ المال4/ 61،ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"(والثاني) وهو الأجير (الخاص) ويسمى أجير وحد (وهو من يعمل لواحد عملا مؤقتا بالتخصيص ويستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة وإن لم يعمل".

(‌‌كتاب الإجارة،باب ضمان الأجير6/ 69،ایضاً)

  البحر الرائق میں ہے:

"وفي شرح الآثار: التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال".

(كتاب الحدود،فصل فی التعزیر،5/41، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144303100340

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں