بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ٹیچر ریسورس سینٹر کا اساتذہ اور طلبہ کی تعلیم وتربیت پر زکوٰۃ کی رقم خرچ کرنا


سوال

” ٹیچر ریسورس سینٹر “ ایک  غیر  سرکاری اور غیر منافع بخش ادارہ ہے ، جو گزشتہ 36 سال سے اساتذہ کی تربیت کر رہا ہے،  یہ ادارہ اپنے  نہایت محدود وسائل کے ساتھ اسکول،  اساتذہ اور طلبہ کو معیاری تعلیم کے حصول میں راہ نمائی فراہم کر رہا ہے،  اس سلسلے میں غریب اور مستحق اساتذہ کے لیے  مفت ٹریننگ اور  ڈپلومہ کورسز کروائے جاتے ہیں اور اسکول اور طلبہ  کے لیے  تعلیمی وسائل وغیرہ تیار کیے جاتے ہیں،  آپ سے درخواست ہے کہ” ٹیچر ریسورس سینٹر “  کو زکوٰۃ  کا فتوی جاری کیا جائے؛  تاکہ زیادہ سے زیادہ غریب اور مستحق اساتذہ ،  اسکول اور طلبہ کے لیے خدمات انجام دے سکیں۔

وضاحت: زکوٰۃ کی رقم سے غریب اساتذہ اور طلبہ کی ٹریننگ کرتے ہیں، اساتذہ کو تدریس /پڑھانے کی تربیت دیتے  ہیں،  اور طلبہ کو جو آئندہ  پڑھانے  کا ارادہ رکھتے ہیں،  ان کو پڑھانے کی تربیت  یعنی  ڈپلومہ وغیرہ کرواتے ہیں،  یہ زکوٰۃ کی رقم مختلف زکوٰۃ دینے والے اداروں سے حاصل کی جائے گی۔ 

ادارہ کے رجسٹریشن سرٹیفکیٹ اور دیگر دستاویزات ریفرنس کے طور پر منسلک کئے گئے ہیں ۔

جواب

واضح رہے کہ   زکوٰۃ کی ادائیگی  کے لیے یہ ضروری ہے کہ  اسے کسی مسلمان ، مستحقِ زکوٰۃ  شخص کو بغیر عوض کے مالک بناکر دیا جائے ،  اس لیے رفاہی ، تعمیراتی ، انتظامی کاموں   یا  ملازمین کی تنخواہوں    میں زکوٰۃ کی رقم خرچ کرنا جائز نہیں ہے،    کیوں کہ اس میں تملیک (کسی کو مالک بنانا) نہیں پایا جاتا، اس سے زکوٰۃ دینے والوں کی زکوٰۃ بھی ادا نہیں ہوگی۔

 صورتِ   مسئولہ میں  ” ٹیچر ریسورس سینٹر “  کا  غریب اور مستحق اساتذہ کی  ٹریننگ اور  ڈپلومہ کورسز اور دیگر انتظامی کاموں  میں زکوٰۃ کی رقم لگانا جائز نہیں ہوگا، اس سے زکوٰۃ دینے والوں کی زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی، البتہ   اگر طلبہ یا اساتذہ میں سے کوئی زکوٰۃ کا مستحق ہو (یعنی اس کی  ملکیت میں  استعمال سے زائد ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی قیمت کے برابر ضرورت سے زیادہ سامان نہ ہو اور  نہ ہی سونا، چاندی اور نقدی کی اتنی مقدار موجود ہو کہ جس کا مجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہو، نہ ہی وہ سید، ہاشمی ، عباسی ہو) تو  ان کو مالک بناکر زکوٰۃ کی رقم (کسی بھی عنوان) سے دینا جائز ہوگا، اس کے بعد ان سے فیس کی مد میں رقم وصول کرکے، اس فیس کی رقم سے اساتذہ اور طلبہ کو  مختلف کورسز وغیرہ کروانا یا دیگر انتظامی کاموں میں استعمال کرنا   جائز ہوگا۔

بدائع  الصنائع میں ہے:

"وأما ركن الزكاة فركن الزكاة هو إخراج جزء من النصاب إلى الله تعالى، وتسليم ذلك إليه يقطع المالك يده عنه بتمليكه من الفقير وتسليمه إليه أو إلى يد من هو نائب عنه، وكذا لو دفع زكاة ماله إلى صبي فقير أو مجنون فقير وقبض له وليه أبوه أو جده أو وصيهما جاز؛ لأن الولي يملك قبض الصدقة عنه."

(2 / 39، کتاب الزکاۃ، فصل: رکن الزکاۃ، ط: دار الکتب العلمیة)

فتاوی شامی میں ہے:

"ويشترط أن يكون الصرف (تمليكا) لا إباحة كما مر (لا) يصرف (إلى بناء) نحو (مسجد و) لا إلى (كفن ميت وقضاء دينه) أما دين الحي الفقير فيجوز لو بأمره، ۔۔۔۔ وقدمنا لأن الحيلة أن يتصدق على الفقير ثم يأمره بفعل هذه الأشياء وهل له أن يخالف أمره؟ لم أره والظاهر نعم."

(2 / 344،345، باب المصرف، ط: سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144308101027

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں