بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تعزیت کی مدت اور عورتوں کی تعزیت کا حکم


سوال

1۔میت کی تعزیت جو کہ تین دن تک کی جاتی، کیا فوت شدہ کے مقام سے دور کسی دوسرے شہر میں میت کا قریبی عزیز جیسا کہ باپ ،بیٹا ،بھائی وغیرہ ،کیا وہ بھی کسی دوسرے شہر میں تین دن تعزیت کے لیۓ بیٹھ سکتے ہیں یانہیں؟کیا قریبی عزیز یا میت کے چچا ماموں بھی تعزیت کے لیے بیٹھ سکتے ہیں؟

2۔اگر تین دن سےکم یا زیاہ یا صرف چھٹی کے دن تین دن گذرنے کے بعد کسی دن بیٹھ سکتے ہیں یا  نہیں؟ 

3۔عورتوں کی تعزیت کے بارے میں بھی اسی سوال میں راۓ درکارہے۔

جواب

1۔واضح رہے کہ کسی مسلمان کے انتقال پر میت کے متعلقین  و لواحقین سے تعزیت کرنا سنت سے ثابت ہے،تعزیت (یعنی تسلی اور صبر کی تلقین کرنا)  میت کے لواحقین ،اعزاء ،اقارب اور ہر اس شخص سے کی جاسکتی ہے جو میت کے انتقال کی وجہ سے صدمہ اور غم میں ہو،تعزیت کے لیے ضروری نہیں کہ میت کے گھر ہی میں جاکر ان کے اعزاء واقارب سے کی جائے، بلکہ کسی بھی علاقے میں میت کے اعزاء واقارب سے بھی ان سے تعزیت کی جاسکتی ہے ، نیز میت کے اعزاء واقارب بھی تعزیت کے لیے بیٹھ سکتے ہیں۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر میت کے متعلقین ولواحقین کسی دوسرے شہر میں تعزیت کے لیے بیٹھ جائیں کہ لوگ ان کے پاس آکر تعزیت کریں ،تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے،نیز تعزیت کے لیے میت کے  اعزاء واقارب بھی بیٹھ سکتے ہیں۔

2۔واضح رہےکہ شرعاً تین دن تک تعزیت کی اجازت ہے،اورتین دن کے بعد تعزیت کرنا مکروہ  ہے ،   البتہ اگر کوئی   اس موقع پرموجود نہ ہو، سفر میں ہویاکسی دور جگہ پر ہو،اور ان تین دنوں میں تعزیت نہ کرسکا ہو تو وہ بعد میں بھی تعزیت کرسکتا ہے ۔

لہذاصورتِ مسئولہ میں اگر کسی شخص کےچھٹی کا دن ،میت کے انتقال کے تین دن کے بعد ہو،توتین دن کے بعد  تعزیت کے لیے بیٹھنا  مکروہ ہے۔

3۔ اگر مذکورہ سوال سے سائل کی  مراد یہ ہے کہ کیا عورتیں تعزیت کرسکتی ہیں؟ تو اس کا حکم یہ ہے کہ اگر کسی بڑی عمر کی  خاتون جس کے گھر سے باہر نکلنے کی صورت میں فتنے کا اندیشہ نہ ہو،  حسبِ پردہ اپنے قریبی رشتہ دار خاتون کی تعزیت کے لیے جائے، تو یہ جائز ہے ،شریعت میں اس کی کوئی پابندی نہیں ہے، تاہم نوجوان  خاتون  جس کے باہر نکلنے میں فتنے کا اندیشہ ہو،تو کسی بھی قریبی رشتہ دار  کی تعزیت  لیے گھر  سے باہر جانے کی اجازت نہیں ہے ۔

اگر مذکورہ سوال سے سائل کی مراد یہ ہے کہ کیا عورتوں سے تعزیت کرسکتے ہیں؟، تو اس کا حکم یہ ہے کہ خواتین اور محرم مرد ،عورتوں سے بھی تعزیت کرسکتے ہیں۔

حاشية الطحطاوی میں ہے:

"وتستحب التعزية للرجال والنساء اللاتي لا يفتن.

(قولہ:تستحب التعزية )ويستحب أن يعم بها جميع أقارب الميت إلا أن تكون امرأة شابة."

(کتاب الصلوٰۃ،باب احکام الجنائز،ص:618،ط،:قدیمی)

البحر الرائق میں ہے:

"والتعزية في اليوم الأول أفضل والجلوس في المسجد ثلاثة أيام للتعزية مكروه، وفي غيره جاءت الرخصة ثلاثة أيام للرجال وتركه أحسن ويكره للمعزي أن يعزي ثانيا اهـ."

(كتاب الجنائز،الصلوٰۃ علی المیت فی المسجد،ج:2،ص:207،ط:دار الکتاب الاسلامی)

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"التعزية لصاحب المصيبة حسن۔۔۔ووقتها من حين يموت إلى ثلاثة أيام ويكره بعدها إلا أن يكون المعزي أو المعزى إليه غائبا فلا بأس بها وهي بعد الدفن أولى منها قبله وهذا إذا لم ير منهم جزع شديد فإن رئي ذلك قدمت التعزية ويستحب أن يعم بالتعزية جميع أقارب الميت الكبار والصغار والرجال والنساء إلا أن يكون امرأة شابة فلا يعزيها إلا محارمها۔۔۔ولا بأس لأهل المصيبة أن يجلسوا في البيت أو في مسجد ثلاثة أيام والناس يأتونهم ويعزونهم."

(کتاب الصلوٰۃ،الباب الحادي والعشرون في الجنائز ،الفصل السابع في الشهيد،ج:1،ص:167،ط:رشیدیۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403100612

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں