بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تعزیتی مجلس ختم کرنے کے لیے تیسرے دن آخر میں اجتماعی دعا کا التزام کرنا/ تدفین کے موقع پر وعظ و نصیحت کرنا


سوال

 ہمارے علاقے میں جب فوتگی ہوجاتی ہے تو میت کے ورثاء کے ساتھ تین دن تک تعزیت کا اہتمام کیا جاتا ہے، تیسرے روز کے اختتام پر امام مسجد یا کسی دوسرے عالم دین کو بلاکر ان سے اختتامی دعا کرائی جاتی ہے، وہ عالم دین وعظ و نصیحت کی چند باتیں کرکے آخر میں دعا کے ساتھ تعزیت کی مجلس کا اختتام کرتے ہیں، یہ طرز عمل گو وہ لازم تو نہیں سمجھتے لیکن آج کل ایک رواج کی صورت اختیار کرگیا ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا یہ طرز عمل بدعت کے زمرے میں آتا ہے؟

نیز اس طرح کا ایک عمل میت کے دفناتے وقت بھی اختیار کیا جاتا ہے کہ کچھ لوگ تو میت کو دفنانے میں مصروف ہوتے ہیں جبکہ باقی لوگ قبرستان میں ایک جگہ جمع ہوکر بیٹھ جاتے ہیں اور ایک واعظ میت کے دفن ہونے تک وعظ و نصیحت کی باتیں کرتا ہے۔یہاں بھی سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح قبرستان میں لوگوں کو جمع کرکے موقع کی مناسبت سے تقریر کرنا بدعت ہے؟ یہ سوالات  اس لئے کئے گئے کہ یہاں ایک مخصوص طبقے کے لوگ اب اس طرزِ عمل کو بدعت کہہ رہے ہیں۔

جواب

واضح رہے کہ وہ اعمال جنہیں شریعت نے کسی خاص کیفیت یا خاص وقت کے ساتھ مقید نہیں کیا ان کی کیفیت بدل کر اپنی طرف سے کسی خاص کیفیت کا التزام کرنا یا اپنی طرف سے اوقات کی تعیین کرنا بھی بدعت ہے۔  حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی نقل فرماتے ہیں:

"لا تختصوا ‌ليلة ‌الجمعة بقيام من بين الليالي، ولا تخصوا يوم الجمعة بصيام من بين الأيام، إلا أن يكون في صوم يصومه أحدكم."

(صحيح مسلم،باب كراهة صيام يوم الجمعة منفردا، 1/ 801، رقم الحديث:1144)

’’جمعہ کی رات کو دوسری راتوں سے نماز اور قیام کے لیے خاص نہ کرو اور جمعہ کے دن کو دوسرے دنوں سے روزہ کے لیے خاص نہ کرو، مگر یہ کہ کسی کے روزوں کی ترتیب میں یہ دن آجائے۔‘‘

اس صحیح روایت سے معلوم ہوا کہ جمعہ کی فضیلت نماز جمعہ کی وجہ سے ہے، محض اس فضیلت کے سبب جمعہ کی رات کونماز وغیرہ کے لیے اور دن کو روزہ کے لیے خاص کرنا صحیح نہیں ہے۔علامہ شاطبی رحمہ اللہ ’’الاعتصام‘‘ میں بدعات کی تعیین کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"منها: وضع الحدود كالناذر للصيام قائما لا يقعد ...ومنها: التزام الكيفيات والهيئات المعينة ... ومنها: التزام العبادات المعينة في أوقات معينة لم يوجد لها ذلك التعيين في الشريعة."

(1/ 53، الباب الأول تعريف البدع وبيان معناها)

’’انہیں بدعات میں سے روزے کی نذر ماننے والے کا کھڑے ہوکر روزہ پورا کرنے کی نذر ماننا ... اور  کیفیات مخصوصہ اور ہیئات معینہ کا التزام کرنا... اور  خاص اوقات کے اندر ایسی عبادات معینہ کا التزام کرلینا بھی ہے جن کے لیے شریعتِ مطہرہ نے وہ اوقات مقرر نہیں کیےہیں۔‘‘

اور دوسری جگہ لکھتے ہیں:

"فإذا ‌ندب ‌الشرع مثلا إلى ذكر الله، فالتزم قوم الاجتماع عليه على لسان واحد وبصوت، أو في وقت معلوم مخصوص عن سائر الأوقات؛ لم يكن في ‌ندب ‌الشرع ما يدل على هذا التخصيص الملتزم، بل فيه ما يدل على خلافه."

(1/ 318، الباب الرابع في مأخذ أهل البدع بالاستدلال، فصل تحريف الأدلة عن مواضعها)

’’جب شریعت نے کسی چیز کی ترغیب دی ہو مثلاً ذکراللہ کی، سو اگر ایک قوم اس کا التزام کرلے کہ یک زبان ہوکر ایک آواز سے وہ ذکر کرے یا دیگر اوقات کے علاوہ کسی معلوم اور مخصوص وقت کے اندر وہ ذکر کرے تو شریعت کی ترغیب اس معین تخصیص اور التزام پر ہرگز دلالت نہیں کرتی بلکہ وہ اس کے خلاف دلالت کرتی ہے۔‘‘

حافظ ابن دقیق العید رحمہ اللہ ’’إحكام الأحكام شرح عمدة الأحكام‘‘ میں لکھتے ہیں:

"إن ‌هذه ‌الخصوصيات بالوقت أو بالحال والهيئة، والفعل المخصوص: يحتاج إلى دليل خاص يقتضي استحبابه بخصوصه. وهذا أقرب."

’’یہ خصوصیات وقت یا حال یا ہیئت اور فعل مخصوص کے ساتھ ، کسی خاص دلیل کے محتاج ہیں جو بالخصوص ان کے استحباب پر دلالت کرے اور یہی چیز اقرب الی الصواب ہے۔‘‘

پھر آگے لکھتے ہیں:

"لأن الحكم باستحبابه على تلك الهيئة الخاصة: يحتاج دليلا شرعيا عليه ولا بد."

’’کیوں کہ کسی چیز کے کسی خاص ہیئت کے ساتھ مستحب ہونے پر لازم اور ضروری ہے کہ دلیل شرعی موجود ہو۔‘‘

پھر آگے روافض کی عید غدیر کی تردید کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

"ما أحدثته الروافض من عيد ثالث، سموه عيد الغدير. وكذلك الاجتماع وإقامة شعاره في وقت مخصوص على شيء مخصوص، لم يثبت شرعا. وقريب من ذلك: أن تكون العبادة من جهة الشرع مرتبة على وجه مخصوص. فيريد بعض الناس: أن يحدث فيها أمرا آخر لم يرد به الشرع، زاعما أنه يدرجه تحت عموم. فهذا لا يستقيم؛ لأن الغالب على العبادات التعبد، ومأخذها التوقيف."

(کتاب الصلاۃ، باب فضل الجماعة ووجوبها، 1/ 200، ط: مطبعة السنة المحمدية)

’’شیعوں نے جو تیسری عید جسے وہ عید غدیر کہتے ہیں ایجاد کی ہے، اس کے لیے اجتماع اور اس کے بطور شعار قائم کرنے پر جو مخصوص وقت اور ہیئت کے ساتھ قائم کی جاتی ہے کوئی شرعی دلیل موجود نہیں ہے اور اسی کے قریب یہ بات بھی ہے کوئی عبادت شریعت میں کسی خاص طریقہ پر ثابت ہو اور بعض لوگ اس میں کچھ تغیر کردیں اور یہ خیال کریں کہ یہ بھی عموم  کے تحت ہے تو ان کا ایسا خیال درست نہ ہوگا کیوں کہ عبادات میں تعبد ی طریقہ(محض اتباع) غالب ہے اور اس کامأخذ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہ کرام سے) اطلاع پائے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا۔ 

مسند الدارمی میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی ایک روایت کا حاصل یہ ہے کہ ان کا گزر مسجد میں ذاکرین کی ایک جماعت پر ہوا، جس میں ایک شخص یہ کہتا تھا کہ سو مرتبہ تکبیر کہو تو حلقہ میں بیٹھے لوگ کنکریوں پر سو مرتبہ تکبیر کہتے، وہ کہتا سو بار تہلیل (لاالہ الا اللہ) کہو تو وہ سو بار تہلیل کہتے، وہ کہتا کہ سو بار تسبیح پڑھو تو وہ سو بار تسبیح پڑھتے، حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے پوچھا: تم ان کنکریوں پر کیا پڑھ رہےہو؟ وہ کہنے لگے کہ ہم تکبیرو تہلیل اور تسبیح پڑھ رہے ہیں، آپ نے فرمایا: 

"فعدوا سيئاتكم، فأنا ضامن أن لا يضيع من حسناتكم شيء ويحكم يا أمة محمد، ما أسرع ‌هلكتكم هؤلاء صحابة نبيكم صلى الله عليه وسلم متوافرون، وهذه ثيابه لم تبل، وآنيته لم تكسر... أو مفتتحو باب ضلالة."

(‌‌باب في كراهية أخذ الرأي، 1/ 287، رقم الحديث:210، ط: دار المغني، السعودية)

’’تم ان کنکریوں پر اپنے گناہ شمار کیا کرو، میں اس کا ضامن ہوں کہ تمہاری نیکیوں میں سے کچھ بھی ضائع نہ ہوگا، تعجب ہے تم پہ اے امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہی جلدی تم ہلاکت میں پڑگئےہو، ابھی صحابۂ کرام تم میں کثرت سے موجود ہیں اور ابھی تک محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے پرانےنہیں ہوئے اور ابھی تک آپ کے برتن نہیں ٹوٹے (یعنی ان کی وفات کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا) ... ایسے میں تم کیا بدعت وگمراہی کا دروازہ کھولتے ہو؟‘‘

 مجالس الابرارمیں الشیخ احمد بن محمد الرومی الحنفی رحمہ اللہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی مذکورہ روایت یوں نقل کرتے ہیں:

"فلما سمع ما يقولون قام فقال: أنا عبدالله بن مسعود فوالله الذي لاإله غيره لقد جئتم ببدعة ظلماء أو لقد فقتم على أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم."

’’جب عبداللہ بن مسعود نے انہیں ذکر کرتے سنا تو کھڑے ہوئے اور فرمایا: میں عبداللہ بن مسعود ہوں، پس اس ذات کی قسم کھاکر کہتا ہوں جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں: تم نےیہ نہایت تاریک بدعت ایجاد کی ہے یا تم علم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ سے بڑھ گئے ہو۔‘‘

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے اس فرمان کا مقصد یہ تھا کہ اگرچہ تکبیر و تہلیل و تسبیح کی بہت فضیلتیں وارد ہوئی ہیں اور محبوب ترین ذکر ہے لیکن اس کا یہ خاص طرز و طریقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام کا بتایا ہوا نہیں ہے بلکہ یہ خود تمہارا ایجاد کردہ ہے، لہذا یہ بدعت وگمراہی ہے۔

پھر شیخ احمد بن محمد رحمہ اللہ  اس فرمان پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"هكذا يقال بكل من أتى في العبادات البدنية المحضة بصفة لم تكن في زمن الصحابة."

(المجلس الثامن عشر فی بيان أقسام البدع و أحكامہا، ص:150، ط:سہیل اکیڈمی لاہور)

’’ہر اس شخص کے متعلق ایسا ہی کہا جائے گا (کہ وہ بدعت کا مرتکب ہے) جو خالص بدنی عبادات میں کوئی ایسی صفت اور ہیئت پیدا کرے جو صحابۂ کرام کے زمانہ میں نہ تھی۔‘‘

کیوں کہ اس تغییر ہیئت کی وجہ سے دین میں تبدیلی واقع ہوجائے گی اور اسی کا نام تحریف ِدین ہے، چنانچہ حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ اپنی مایہ ناز کتاب ’’حجۃ اللہ البالغۃ‘‘ میں تحریف ِدین کے اسباب بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

"ومنها ‌التشدد وحقيقته اختيار عبادات شاقة لم يأمر بها الشارع كدوام الصيام والقيام التبتل وترك التزوج، وأن يلتزم السنن والآداب كالتزام الواجبات ... فإذا صار هذا المتعمق أو المتشدد معلم قوم ورئيسهم ظنوا أن هذا أمر الشرع ورضاه، وهذا داء رهبان اليهود والنصارى."

(باب أحكام الدين من التحريف، 1/ 211، ط: دار الجيل بيروت)

’’اور ان اسباب میں سے ایک تشدد اختیار کرنا ہے اور اس کی حقیقت یہ ہے کہ ایسی مشکل عبادات کو اختیار کرلیا جائے جن کا شریعت نے حکم نہیں دیا، مثلا کوئی ہمیشہ روزے رکھے اور قیام کرے اور خلوت نشینی اختیار کرے اور نکاح کرنا چھوڑدے اور یہ کہ واجبات کی طرح سنن و مستحبات کا التزام کرے... جب کوئی ایسا متعمق اور متشدد کسی قوم کا معلم یا رئیس بن جاتا ہے تو قوم کو یہ گمان ہوجاتا ہے کہ یہ عمل شریعت کا حکم اور اس کا پسندیدہ امر ہے اور یہی بیماری یہود ونصاری کے صوفیاء میں تھی۔‘‘

علامہ ابن نجيم مصری حنفی رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’البحر الرائق شرح کنز الدقائق‘‘ میں رقم طراز ہیں:

"ولأن ذكر الله تعالى إذا قصد به التخصيص ‌بوقت ‌دون ‌وقت أو بشيء دون شيء لم يكن مشروعا حيث لم يرد الشرع به؛ لأنه خلاف المشروع." 

(كتاب الصلاة، باب العيدين، 2/ 172، ط:دار الكتاب الإسلامي بيروت)

’’اس لیے کہ جب ذکراللہ کی کسی ایک وقت کے ساتھ تخصیص کا قصد کرلیا جائے یا کسی شے کے ساتھ ذکراللہ کی تخصیص کردی جائےتو وہ جائز نہ ہوگااس لیے کہ اس کے متعلق شریعت میں کوئی تخصیص نہیں آئی، لہذا وہ خلاف شرع ہوگا۔‘‘

اس عبارت کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالی کا ذکر اگرچہ بڑی عبادت ہے لیکن جب شریعت نے اسے کسی خاص وقت یا کسی خاص ہیئت وکیفیت کے ساتھ مخصوص نہیں کیا تو اسے اپنی طرف سے کسی خاص وقت اور کیفیت کے ساتھ مخصوص کردینا جائز نہیں ہوگا بلکہ تحریفِ دین ہوگا، اس لیے کہ شریعت نے ایسا کرنے کا حکم نہیں دیا۔   

 مذکورہ بالا اقتباسات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جب شریعت نے کسی دن یا رات کو کسی عبادت کے لیے مخصوص نہ کیا ہو اور جب ذکراللہ وغیرہ طاعات کو کسی خاص ہیئت اور کیفیت کے ساتھ ادا کرنے کا پابند نہ کیا ہو تو اپنی طرف سے وقت اور کیفیت متعین کرنا اور اس تعیین کا التزام کرنا ناجائز اور بدعت ہے۔

اس تمہید کے بعد آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ اگرتعزیتی مجلس ختم کرنے کے لیے اجتماعی دعا کا ایسا اہتمام کیا جاتا ہو  کہ  اس کے لیےباقاعدہ  کسی عالم دین کو بلایا جاتا ہو، اور شرکت نہ کرنے والوں کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جاتا ہو تو پھر یہ اجتماعی دعا ایک ایسے کام کا التزام ہوگا جس کی شریعت میں کوئی اصل نہیں ہے اور اوپر یہ بات گزرچکی  کہ جب شریعت میں کسی طاعت وعبادت کی ادائیگی کسی خاص کیفیت کے ساتھ مخصوص نہ کی گئی ہو تو اس کو کسی خاص کیفیت کے ساتھ ادا کرنے کا التزام کرنا بدعت ہے،اور اگر باقاعدہ اہتمام نہ کیا جاتا ہو بلکہ حاضرین کے ساتھ مل کر کبھی کبھار اجتماعی دعا کرلی جاتی ہواور نہ کرنے پر طعن و تشنیع اور ملامت وغیرہ نہ ہوتی ہو  تو پھر ایسا کرنا بدعت نہیں ہوگا، لہذا تعزیتی مجلس کے اختتام پر اجتماعی دعا کا رواج ختم  کیا جائے۔ 

نیزصحیح بخاری شریف میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی روایت سےبعض دفعہ تدفین کے موقع پر حاضرین کو  وعظ و نصیحت کرنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے ثابت ہے، روایت ملاحظہ ہو:

"عن علي رضي الله عنه، قال: كنا في جنازة في بقيع الغرقد، فأتانا النبي صلى الله عليه وسلم فقعد وقعدنا حوله، ومعه مخصرة، فنكس فجعل ينكت بمخصرته، ثم قال: «ما منكم من أحد، ما من نفس منفوسة إلا كتب مكانها من الجنة والنار، وإلا قد كتب شقية أو سعيدة».... الخ."

(‌‌كتاب الجنائز، باب موعظة المحدث عند القبر، وقعود أصحابه حوله، 1/ 182، ط :قدیمی)

’’حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ ہم بقیع غرقد میں ایک جنازے میں تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور بیٹھ گئے ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد بیٹھ گئے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک چھڑی تھی جسے آپ نے زمین میں ڈال کر اس سے نشانات بنانے لگے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انسان کے ایک ایک فرد کو جنت اور جہنم کے لیے پہلے ہی سے لکھا جاچکا ہے اور یہ بھی کہ کون شقی اور کون سعید ہے...الخ‘‘

علامہ بدرالدین عینی رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’عمدة القاری شرح صحيح البخاری‘‘ میں اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں  کہ قبرستان میں کسی مصلحت کی وجہ سے وعظ و نصیحت کرنا مکروہ نہیں ہے، ملاحظہ ہو:

"(باب موعظة المحدث عند القبر وقعود أصحابه حوله) أي: هذا باب في بيان وعظ المحدث عند القبر ... وكأنه أشار بهذه الترجمة إلى أن الجلوس مع الجماعة عند القبر، إن كان لمصلحة تتعلق بالحي أو الميت لا يكره ذلك، فأما مصلحة الحي فمثل أن يجتمع قوم عند قبر وفيهم من يعظهم ويذكرهم الموت وأحوال الآخرة، وأما مصلحة الميت فمثل ما إذا اجتمعوا عنده لقراءة القرآن والذكر، فإن الميت ينتفع به."

(8/ 185، ط: دار الفكر بيروت)

لہذا تدفین کے موقع پر قبر تیار کرنے میں وقت ہو تو التزام کیے بغیر کبھی کبھار حاضرین کو موقع کی مناسبت سے وعظ و نصیحت کرنا جائز ہے، اسے بدعت قرار نہیں دیا جاسکتا۔ 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403101479

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں