ہمارے گاؤں کیڑی شموزئی، ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے لوگ مسلکًا مکمل حنفی دیوبندی ہیں، یہاں فوتگی ہو جانے کے بعد عجیب و غریب حالت درپیش ہوتی ہے جو کہ بحیثیت ایک عالم ہونے کے مجھے پریشان کرتی ہے، کیوں کہ اگر عوام کو منع کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ یہ چیزیں تو زمانے سے کرتے چلے آ رہے ہیں، اگر ہم غلط ہیں تو تم سے پہلے جو علماء گزرے ہیں، انہوں نے ہمیں منع کیوں نہ کیا، لہذا میں پوری صورتِ حال آپ کے سامنے رکھتا ہوں، پھر آپ شریعتِ مطہرہ کی روشنی میں اس ناکارہ کی راہ نمائی فرمائیں کہ بحیثیت ایک عالم ہونے کے، میں کیا کروں؟
یعنی اگر میرے گھر میں اس طرح کا واقعہ پیش ہو جائے تو کیا کرنا چاہیے اور عوام کو کیا بتانا چاہیے اور اس طرح اپنے خصوصی احباب کو کیا بتا نا چاہیے؟
مندرجہ ذیل مسائل کا مدلل و مفصل حل مطلوب ہے:
1۔ میت ہو جانے کے بعد اکثر اوقات مسافر رشتہ داروں کے لیے میت کو رکھا جاتا ہے، کیا اس طرح جنازے میں تاخیر کرنا درست ہے؟
2۔ میت کا سنتے ہی خواہ میت مرد ہو یا عورت، لوگ اہل میت کے ہاں جمع ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور جنازہ قبرستان لے جانے تک یہ رش رہتا ہے، لیکن یہ اجتماع تعزیت کے لیے نہیں ہوتا، بلکہ تعزیت کے لیے تدفین کے بعد دوبارہ آتے ہیں، اس کے متعلق راہ نمائی فرمائیں۔
3۔ تدفین کے بعد قبر کو ایک بالشت سے بہت ہی بلند بناتے ہیں اور اس کے بعد اوپر ٹینس گیند کے برابر پتھر پوری قبر پر رکھتے ہیں، لوگ کہتے ہیں کہ یہ بطور تحفظ کے ہے، تاکہ درندے قبر سے مردے کو نکال نہ لیں، جب کہ بعض قبور پر پکی اینٹ اور سیمنٹ کا استعمال بھی تحفظ کے نام پر کیا جاتا ہے، کیا یہ درست ہے؟
4۔ اس کے بعد قبر پر سر اور پاؤں کی جانب سورہ بقرہ اول و آخر پڑھی جاتی ہے، پھر ہاتھ اٹھا کر اجتماعی دعا کی جاتی ہے اور یہ عمل ہر میت پر ہوتا ہے، کوئی ایک بھی میت اس عمل کے بغیر دفن نہیں کی جاتی، یعنی اس سے لزوم مترشح ہوتا ہے۔
5۔ اس کے بعد اہل میت تعزیت کے لیے تین دن تک زمین پر چٹائیاں بچھا کر بیٹھک وغیرہ میں اور جن کی بیٹھک نہ ہو تو وہ مسجد یا مدرسے میں بیٹھتے ہیں، چارپائی کرسی وغیرہ پر بیٹھنا برا جانتے ہیں، اس لیے مریض کے علاوہ نہیں بیٹھتا ، بلکہ کہتے ہیں کہ تعزیت کا طریقہ یہی ہے کہ تین دن زمین ہی پر بیٹھا جائے ۔
1۔ میت کی نماز جنازہ میں جلدی کرنی چاہیے، بلا کسی شرعی عذر تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔
2۔تعزیت ایک مسنون عمل ہے اور احادیثِ مبارکہ میں اس کے فضائل آئے ہیں، اس کا طریقہ یہ ہے کہ تدفین کے بعد یا تدفین سے پہلے میت کے گھر والوں کے یہاں جاکرا ن کو تسلی دے، ان کی دل جوئی کرے، صبر کی تلقین و ترغیب دے اور ان کے اور میت کے حق میں دعائیہ جملے کہے، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں لوگوں کا جمع ہونا یہ دراصل تعزیت ہی ہے، اس لیے اس میں کوئی حرج نہیں۔
3۔قبر کو ایک بالشت تک اونچی کرنے کی اجازت ہے، اس سے زیادہ کی ممانعت ہے، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں ایک بالشت سے زیادہ اونچی کرنا درست نہیں، باقی قبر کی درندوں سے حفاظت کے لیے قبر پر چھوٹے چھوٹے پتھر رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن قبر پر پکی اینٹ یا سیمنٹ کا استعمال کسی صورت جائز نہیں ہے۔
4۔میت کے سرہانے سورۂ بقرہ کی ابتدائی آیات "المفلحون" تک اور پاؤں کی جانب سورۂ بقرہ کی آخری آیات "اٰمن الرسول" سے آخر تک پڑھنا حدیث سے ثابت ہے اور تدفین کے بعد دعا کرنا اور ہاتھ اٹھاکر قبلہ رخ دعا کرنا بھی حدیث سے ثابت ہے، اور ہر میت دعا کی محتاج ہے، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں ہاتھ اٹھا کر قبلہ رخ ہوکردعا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، قصداً اجتماعی دعا کے اہتمام و التزام سے بچنا چاہیے، البتہ اگر بغیر التزام کے اور بغیر قصدکے دعا کے وقت اجتماعی صورت بن جائے تو کوئی حرج نہیں۔
5۔تین دن تک تعزیت کرنے کی اجازت ہے، اس کے بعد تعزیت کرنا مکروہ ہے، لیکن مسافراور وہ شخص جس کو انتقال کا علم نہ ہو اور جو کسی مجبوری کی وجہ سےتین دن کے اندر تعزیت نہ کرسکا ہو تو اس کے لیے تین دن کے بعد بھی تعزیت کرنے کی اجازت ہے، البتہ زمین پر ، چارپائی پر یا کرسی پر بیٹھ کر تعزیت کرنے کے بارے شریعت سے کوئی خاص طریقہ منقول نہیں، جس طرح سہولت ہو تعزیت کرلے، البتہ مستقل تین دن تک اہل میت کے پاس بیٹھنے سے بچنا چاہیے، کیوں کہ مستقل تین دن بیٹھنا اہلِ میت کےلیے تکلیف کا باعث بن سکتا ہے۔
سنن ابن ماجہ میں ہے:
"1486 - حدثنا حرملة بن يحيى، حدثنا عبد الله بن وهب، أخبرني سعيد ابن عبد الله الجهني أن محمد بن عمر بن علي بن أبي طالب حدثه عن أبيه عن جده علي بن أبي طالب أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "لا تؤخروا الجنازة إذا حضرت".
(أبواب الجنائز، باب ما جاء في الجنازة لا تؤخر إذا حضرت ولا تتبع بنار، ج:2، ص:460، ط: دار الرسالة العالمية)
فتاوی شامی میں ہے:
"(قوله: و تعجيله) أي تعجيل جهازه عقب تحقق موته، ولذا كره تأخير صلاته ودفنه ليصلي عليه جمع عظيم بعد صلاة الجمعة كما مر".
(كتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة، فروع في الجنائز، ج:2، ص:239، ط: سعيد)
وفیہ أیضاً:
"(قوله: و يسرع في جهازه) لما رواه أبو داود «عنه صلى الله عليه وسلم لما عاد طلحة بن البراء وانصرف قال ما أرى طلحة إلا قد حدث فيه الموت فإذا مات فآذنوني حتى أصلي عليه وعجلوا به فإنه لا ينبغي لجيفة مسلم أن تحبس بين ظهراني أهله".
(كتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة، فروع في الجنائز، ج:2، ص:193، ط: سعيد)
سنن ابن ماجہ میں ہے:
"1601 - حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا خالد بن مخلد، حدثني قيس أبو عمارة مولى الأنصار، قال: سمعت عبد الله بن أبي بكر بن محمد ابن عمرو بن حزم يحدث عن أبيه عن جده، عن النبي صلى الله عليه وسلم، أنه قال: "ما من مؤمن يعزي أخاه بمصيبة، إلا كساه الله سبحانه من حلل الكرامة يوم القيامة".
(أبواب الجنائز، باب ما جاء في ثواب من عزى مصابا، ج:2، ص:532، ط: دار الرسالة العالمية)
سنن ترمذی میں ہے:
"1052 - حدثنا عبد الرحمن بن الأسود أبو عمرو البصري قال: حدثنا محمد بن ربيعة، عن ابن جريج، عن أبي الزبير، عن جابر قال: «نهى النبي صلى الله عليه وسلم أن تجصص القبور، وأن يكتب عليها، وأن يبنى عليها، وأن توطأ".
(أبواب الجنائز، باب ما جاء في كراهية تجصيص القبور، والكتابة عليها، ج:3، ص:359، ط: مصطفى البابي الحلبي)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"ويسنم القبر قدر الشبر ولا يربع ولا يجصص ولا بأس برش الماء عليه ويكره أن يبنى على القبر أو يقعد أو ينام عليه أو يوطأ عليه أو تقضى حاجة الإنسان من بول أو غائط أو يعلم بعلامة من كتابة ونحوه، كذا في التبيين".
(كتاب الصلاة، الباب الحادي والعشرون في الجنائز، الفصل السادس في القبر والدفن والنقل من مكان إلى آخر، ج:1، ص:166، ط: دار الفكر)
مشکاۃ المصابیح میں ہے:
"وعن عبد الله بن عمر قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: «إذا مات أحدكم فلا تحبسوه وأسرعوا به إلى قبره وليقرأ عند رأسه فاتحة البقرة وعند رجليه بخاتمة البقرة» . رواه البيهقي في شعب الإيمان. وقال: والصحيح أنه موقوف عليه".
(كتاب الجنائز، باب دفن الميت، الفصل الثالث، ج:1، ص:538، ط: المكتب الإسلامي)
فتاوی شامی میں ہے:
"فقد ثبت «أنه عليه الصلاة والسلام قرأ أول سورة البقرة عند رأس ميت وآخرها عند رجليه".
(كتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة، مطلب في زيارة القبور، ج:2، ص:242، ط: سعيد)
سنن أبی داؤد میں ہے:
"3221 - حدثنا إبراهيم بن موسى الرازي، حدثنا هشام -يعني: ابن يوسف-، عن عبد الله بن بحير، عن هانىء مولى عثمان عن عثمان بن عفان، قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا فرغ من دفن الميت وقف عليه فقال: "استغفروا لأخيكم وسلوا له بالتثبيت؛ فإنه الآن يسأل".
(أول كتاب الجنائز، باب الاستغفار عند القبر للميت، ج:5، ص:127، ط: دار الرسالة العالمية)
مرقاۃ المفاتیح میں ہے:
"عن ابن مسعود قال: والله فكأني أرى رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزوة تبوك وهو في قبر عبد الله ذي البجادين، وأبو بكر وعمر، يقول: أدنيا مني أخاكما، وأخذه من قبل القبلة، حتى أسنده في لحده، ثم خرج رسول صلى الله عليه وسلم وولاهما العمل، فلما فرغ من دفنه استقبل القبلة رافعا يديه يقول: «اللهم إني أمسيت عنه راضيا فارض عنه» ، وكان ذلك ليلا، فوالله، لقد رأيتني ولو وددت أني مكانه".
(كتاب الجنائز، باب دفن الميت، ج:3، ص:1222، ط: دار الفكر)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"ووقتها من حين يموت إلى ثلاثة أيام ويكره بعدها إلا أن يكون المعزي أو المعزى إليه غائبا فلا بأس بها وهي بعد الدفن أولى منها قبله".
(كتاب الصلاة، الباب الحادي والعشرون في الجنائز، مسائل في التعزية، ج:1، ص:167، ط: دار الفكر)
فتاوی شامی میں ہے:
"وتكره بعدها إلا لغائب".
"(قوله إلا لغائب) أي إلا أن يكون المعزي أو المعزى غائبا فلا بأس بها جوهرة. قلت: والظاهر أن الحاضر الذي لم يعلم بمنزلة الغائب كما صرح به الشافعية".
(كتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة، مطلب في الثواب على المصيبة، ج:2، ص:241، ط: سعيد)
کفایت المفتی میں ہے:
میت کے لیے اجتماعی دعا ثابت نہٰیں بلا قصد اجتماعی صورت بن جائے تو مضائقہ نہیں
سوال:في سنن أبي داؤد : کان النبي صلي الله عليه وسلم إذا فرغ من دفن المیت وقف علی قبره وقال: استغفروا لأخىكم واسألوا الله له التثبيت الخمرقومہ بالا حدیث سے مغفرت مانگنا جمعاً ثابت ہوتا ہےیا فرداً فرداً؟بینواتؤجروا۔
"الجواب: ہاں اس حدیث کے سیاق سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ تمام حاضرین ایک ساتھ دعا کرتے تھے؛ کیوں کہ دفن سے فارغ ہونے کے بعد واپس آنے کا موقع تھا، لیکن اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آں حضرت ﷺواپسی میں کچھ تاخیر وتوقف فرماتے تھے، اور میت کی تثبیت و مغفرت کی خود بھی دعا فرماتے تھے اور حاضرین کو بھی اسی وقت دعا کرنے کا حکم کرتے تھے، کیوں کہ "فإنه الآن یسئل" اس کا قرینہ ہے، پس تھوڑی دیر سب کا توقف کرنا اور حاضرین کو اسی وقت دعا واستغفار کا حکم فرمانااور سب کا موجود ہونا اور اس وقت کا وقت قرب سوال نکیرین ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ سب حاضرین کی دعا ایک وقت میں اجتماعاً ہوتی تھی، اور یہی معمول و متوارث ہے، لیکن واضح رہے کہ یہ اجتماع جو حدیث سے ثابت ہے اجتماع قصداً للدعا یہ بھی نہیں ہے، بلکہ اجتماع قصدی دفن کے لیے ہے، اگرچہ بسبب امور متذکرہ بالا اس وقت دعا بھی اجتماعی طور پر ہوگئی"۔واللہ أعلم
(کتاب الجنائز، فصل ششم:تلقین و طلب مغفرت، ج:4، ص:71، دار الإشاعت)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144601100113
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن