بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تعزیت کے لیے آںے کو والوں میت کے گھر کھانا کھانا


سوال

 جو لوگ  میت کے گھر برائے تعزیت آتے ہیں،  اُن کو اہلِ  میت کے گھر کا کھانا کھانا چاهيے يا نهيں ؟

جواب

واضح رہے کہ ضیافت خوشی و مسرت کے مواقع پر ہوتی ہے، نہ کہ میت کے گھر والوں  کی طرف سے، میت کے گھر والے چوں کہ خود غم کا شکار ہوتے ہیں ؛ اس لیے میت کے اقرباء کے لیے مستحب  ہے کہ میت کے گھر کھانا پکا کر بھیجیں، میت کے گھر والوں کی طرف سے ضیافت قابلِ ترک عمل ہے،  فقہاء کرام  نے تعزیت کے موقع پر کھانے کی دعوت کو مکروہ اور بدعتِ مستقبحہ  قرار دیا ہے۔

 ہاں! جو لوگ دور دراز سے  جنازہ میں شرکت کے لیے آتے ہیں او رکسی وجہ سے  واپس نہیں ہوسکتے  اور   اہلِ میت یا ان کے قریبی اعزہ ان کے لیے کھانے کا نظم کردیں تو اس میں مضائقہ نہیں ہے  اور  ان کے لیے میت کے گھر کھانے  کی گنجائش ہوگی۔

فتح القدیر میں ہے:

"ويكره اتخاذ الضيافة من الطعام من أهل الميت لأنه شرع في السرور لا في الشرور، وهي بدعة مستقبحة. روى الإمام أحمد وابن ماجه بإسناد صحيح عن جرير بن عبد الله قال: كنا نعد الاجتماع إلى أهل الميت وصنعهم الطعام من النياحة. ويستحب لجيران أهل الميت والأقرباء الأباعد تهيئة طعام لهم يشبعهم يومهم وليلتهم؛ لقوله صلى الله عليه وسلم: «اصنعوا لآل جعفر طعاماً فقد جاءهم ما يشغلهم». حسنه الترمذي وصححه الحاكم؛ ولأنه بر ومعروف، ويلح عليهم في الأكل؛ لأن الحزن يمنعهم من ذلك فيضعفون، والله أعلم".

 (کتاب الصلاة، قبیل باب الشهید، ج:۲ ؍ ۱۰۲ ، ط: رشیدیه)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207200832

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں