بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تعزیت کے لیے جمع ہونے والوں کا قرآن خوانی کرنا


سوال

تعزیت کے دنوں میں چند لوگ اگر اتفاقاً میت کے گھر جمع ہوجائیں، پھر وہاں پر اجتماعی طور پر ایصال ثواب کیا جائے، خواہ قرآن خوانی کی صورت میں ہویا ختم کی کوئی صورت ہو اور پھر اس کے بعد دعا کی جائے اور اس عمل کو لازمی نہ سمجھا جائے، نیز اسی طرح اگر وہاں اصلاحی بیان کیا جائے، بیان کرنے والا فقط اصلاح کی نیت سے بیان کرے، ثواب کی نیت نہ کرےتو ایسا کرنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ شریعت میں میت کے لیے ایصالِ ثواب  کرنامستحب ہے،لیکن اس کا کوئی خاص طریقہ مقرر نہیں ہے، جو شخص جس وقت جس دن چاہے، کوئی بھی نفلی عبادت کر کے اُس کا ثواب میت کو بخش سکتا ہے،میت کے ایصالِ ثواب کے لیے عزیز و اقارب کا نفسِ قرآن کریم پڑھنااور میت کے لیے دعا کرنا جائز ہے، لیکن مروجہ طریقہ پر دن متعین کرکے اجتماعی طور پر تعزیت کے لیے جمع ہونااور  اجتماعی قرآن خوانی کرنا ، جس میں میت کے یہاں کھانے پینے کا التزام ہو اور لوگوں کو باقاعدہ دعوت دے کر جمع کرنا،نہ آنے والوں سے ناراضی کا اظہار کرنا  اور ان سب باتوں کو باعثِ ثواب اور شریعت کا حصہ سمجھنا بدعت ہے اور ناجائز وممنوع ہے، ایک مزید خرابی اس میں یہ بھی ہے کہ تعزیت کے لیے آنے والوں کو اہلِ میت کے یہاں ضیافت و دعوت بھی نہیں کھانی چاہیے، کیوں کہ دعوت کا کھانا تو خوشی کے موقع پر مشروع ہے نہ کہ غم کے موقع پر، اسی لیے فقہاء نے تعزیت کے موقع پر کھانے کی دعوت کو مکروہ اور بدعتِ مستقبحہ قرار دیا ہے۔

لہذا صورت مسئولہ میں تعزیت کے لیے جمع ہونے والے افراد اگر لازم سمجھے بغیر (کرے) اجتماعی قرآن خوانی کریں اور اس کے لیے پہلے سے دعوت نہ چلائیں اور اسے شریعت کا حصہ نہ سمجھیں، اور شریک نہ ہونے والوں سے  ناراض نہ ہوں اور آخر میں کھانے کا التزام نہ کریں تو مذکورہ طریقے پر قرآن خوانی کرکے آخر میں اجتماعی دعا کرنا جائز ہوگا، اسی طرح اس موقع پر وعظ و نصیحت کرنا بھی جائز ہوگا۔

 فتاویٰ شامی میں ہے:

"مطلب في كراهة الضيافة من أهل الميت: وقال أيضاً: ويكره اتخاذ الضيافة من الطعام من أهل الميت؛ لأنه شرع في السرور لا في الشرور، وهي بدعة مستقبحة: وروى الإمام أحمد وابن ماجه بإسناد صحيح عن جرير بن عبد الله قال: " كنا نعد الاجتماع إلى أهل الميت وصنعهم الطعام من النياحة".اهـ. وفي البزازية: ويكره اتخاذ الطعام في اليوم الأول والثالث وبعد الأسبوع ونقل الطعام إلى القبر في المواسم، واتخاذ الدعوة لقراءة القرآن وجمع الصلحاء والقراء للختم أو لقراءة سورة الأنعام أو الإخلاص. والحاصل: أن اتخاذ الطعام عند قراءة القرآن لأجل الأكل يكره. وفيها من كتاب الاستحسان: وإن اتخذ طعاماً للفقراء كان حسناً اهـ وأطال في ذلك في المعراج. وقال: وهذه الأفعال كلها للسمعة والرياء فيحترز عنها لأنهم لايريدون بها وجه الله تعالى. اهـ. وبحث هنا في شرح المنية بمعارضة حديث جرير المار بحديث آخر فيه «أنه عليه الصلاة والسلام دعته امرأة رجل ميت لما رجع من دفنه فجاء وجيء بالطعام» . أقول: وفيه نظر، فإنه واقعة حال لا عموم لها مع احتمال سبب خاص، بخلاف ما في حديث جرير. على أنه بحث في المنقول في مذهبنا ومذهب غيرنا كالشافعية والحنابلة استدلالاً بحديث جرير المذكور على الكراهة، ولا سيما إذا كان في الورثة صغار أو غائب، مع قطع النظر عما يحصل عند ذلك غالباً من المنكرات الكثيرة كإيقاد الشموع والقناديل التي توجد في الأفراح، وكدق الطبول، والغناء بالأصوات الحسان، واجتماع النساء والمردان، وأخذ الأجرة على الذكر وقراءة القرآن، وغير ذلك مما هو مشاهد في هذه الأزمان، وما كان كذلك فلا شك في حرمته وبطلان الوصية به، ولا حول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم."

(کتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة : 2/ 240، ط: سعید)

الاعتصام للشاطبي  میں ہے:

"وقوله في الحد: " تضاهي الشرعية " يعني أنها تشابه الطريقة الشرعية من غير أن تكون في الحقيقة كذلك، بل هي مضادة لها من أوجه متعددة:

منها: وضع الحدود كالناذر للصيام قائما لا يقعد ... ومنها: التزام الكيفيات والهيئات المعينة ... ومنها: التزام العبادات المعينة في أوقات معينة لم يوجد لها ذلك التعيين في الشريعة."

(ج:1، ص:53، الباب الأول تعريف البدع وبيان معناها)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404100942

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں