بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تعزیت کے لیے باربار ہاتھ اٹھاکر دعاکرنا


سوال

 ہمارے علاقے کارواج ہے کہ میت کے گھرتعزیت پرجانے والامیت کے ورثاء کوجاکرکہتاہے کہ دعامانگیں پھرسب مل کراجتماعی دعاکرتےہیں ، اس دعاکی شرعی حیثیت کیاہے ؟ نیز تعزیت کاشرعی طریقہ تحریرفرماکرعنداللہ ماجورہوں۔

جواب

واضح رہے کہ کسی شخص کے انتقال کے بعد اس کے لواحقیناورمتعلقین سے تعزیت کرنا ( یعنی ان کو تسلی دینا اور صبر کی تلقین کرنا ) سنت سے ثابت ہے، تعزیت کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ میت کی تدفین سے پہلے یا بعد میں میت کے گھر والوں کے یہاں جاکر ان کو تسلی دے، ان کی دل جوئی کرے، صبر کی تلقین کرے،  ان کے اور میت کے حق میں دعائیہ جملے کہے۔

جیساکہفتاویٰعالمگیریمیں ہے:

" ويستحب أن يقال لصاحب التعزية: غفر الله تعالى لميتك وتجاوز عنه، وتغمده برحمته، ورزقك الصبر على مصيبته، وآجرك على موته، كذا في المضمرات ناقلاً عن الحجة. وأحسن ذلك تعزية رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن لله ما أخذ وله ما أعطى وكل شيء عنده بأجل مسمى.........ولا بأس لأهل المصيبة أن يجلسوا في البيت أو في مسجد ثلاثة أيام والناس يأتونهم ويعزونهم."

(الفتاوي الهندية،الباب الحادی والعشرون ، مسائل فی التعزية ۲/۱۶۷ ط:رشيدية)

لہذاصورت مسئولہ میںتعزیت کے دوران ہر آنے والے کالوگوں کے ساتھ مل کرہاتھ اٹھا کر دعا کرنا سنت سے ثابت نہیں ہے،اس لیے اس کو لازم سمجھ کر کرنا  شرعاً درست نہیں ہے، البتہ لازم سمجھے بغیر مغفرت کی کوئی بھی دعا کی جائے یا ہاتھ اٹھا کر دعا کرلی  تو کوئی حرج نہیں ہے۔ جہاں اسے ضروری سمجھا جاتاہو وہاں اس طریقہ کو ترک کرنا ضروری ہے۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100798

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں