بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تعزیت کی مدت، تعزیت اور ایصالِ ثواب کا مسنون طریقہ


سوال

1۔ تعزیت کا شرعی طریقہ کیا ہے؟، نماز جنازہ کا سلام پھیرتے ہی لوگ تعزیت کرنے لگتے ہیں، جس سے دفن میں تاخیر ہوتی ہے، کیا اس موقع پر تعزیت کرنا درست ہے؟

2۔ تعزیت کی مدت کب تک ہے؟ تعزیت کتنی مرتبہ کی جائے؟ تعزیت کتنی دیر کا عمل ہے، اس کے لیے کتنی دیر تک بیٹھنا درست ہے؟

3۔ تعزیت کے لیے آنے والوں کا کا کھانا کھانا درست ہے؟ ان کو کھانا کھلانا درست ہے؟

4۔ معزی اور معزیٰ الیہ کون لوگ ہوں گے؟ دونوں کےاحکام میں کیا فرق ہے؟

5۔ رسول اللہ اورصحابہ کرام کے زمانے میں تعزیت اور ایصالِ ثواب کی عملی شکل کیا تھی؟ چند واقعات اگر نقل کردیں تو مہربانی ہوگی۔

6۔ آج کل معاشرہ میں تعزیت کا جو طریقہ اختیار کر لیا گیا ہےاور جو صورت حال بن چکی ہے، آنجناب اس سے واقف ہیں،  کیا یہ صورتِ حال شریعت کے مزاج کے مطابق ہے؟ اگر نہیں تو شرعی مزاج کے مطابق اس میں کیا تبدیلی کی جائے تاکہ یہ عمل کلی طور پر شرعی ہو اور دوسروں کے لیے قابل عمل نمونہ ہو۔

جواب

1۔  اگر کسی کے ہاں  فوتگی ہو جائے تو  تعزیت کا مسنون  طریقہ یہ ہے کہ  میت کے گھر جاکر ان کے اعزاء واقرباء سے کچھ تسلی کے کلمات کہہ دیئے جائیں اور پیش آمدہ مصیبت پر صبر کرنے  کا ثواب وغیرہ بتلا کر ان کا غم ہلکا کرنے کی کوشش کی جائےاور ان کے  اور میت کے لئے  دعائیہ جملے کہے جائیں، بہترین دعا یہ ہے :

"إِنَّ لِلّٰهِ مَا أَخَذَ، وَلَهٗ مَا أَعْطىٰ، وَكُلٌّ عِنْدَهٗ بِأَجَلٍ مُّسَمًّى، فَلْتَصْبِرْ، وَلْتَحْتَسِبْ".

چنانچہ بخاری شريف ميں  ہے:

حضرت اسامہ بن زید (رضی اللہ عنہ) روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک صاحبزادی نے آپ کو کہلا بھیجا کہ میرا ایک لڑکا وفات پا گیا ہے،اس لیے آپ تشریف لائیں۔ آپ نے اس کا جواب کہلا بھیجا کہ سلام کہتے ہوئے:"إن لله ما أخذ، وله ما أعطى، وكل عنده بأجل مسمى، فلتصبر، ولتحتسب"۔

(كتاب الجنائز، ‌‌باب قول النبي صلى الله عليه وسلم: «يعذب الميت ببعض بكاء أهله عليه» إذا كان النوح من سنته ": 2 / 79، ط: السلطانية، بالمطبعة الكبرى الأميرية)

تعزیت کا وقت میت کے انتقال سے لے کر تین دن تک ہوتا ہے، اس دوران کسی بھی وقت میت کے اہلِ  خانہ اور اعزّہ و اقارب سے تعزیت کی جاسکتی ہے،  البتہ افضل یہ ہے کہ غسل و دفن سے فارغ ہونے کے بعد تعزیت کی جائے، کیوں کہ اس سے پہلے تو میت کے اہلِ خانہ میت کی تجہیز و تکفین میں مشغول ہوں گے اور نماز جنازہ کے بعد تدفین کا مرحلہ ہوتا ہے ، جس میں تاخیر درست نہیں ہے، اس لیے نماز جنازہ کے بعد تعزیت کرنا اگر تدفین میں تاخیر کا باعث بن رہاہو تو  پھر اس وقت تعزیت نہ کی جائے  ۔

2۔تین دن تک تعزیت کی اجازت ہے، اس کے بعد تعزیت کرنا مکروہ  ہے ،   البتہ اگر کوئی   اس موقع پر نہ ہو، سفر میں ہویاکسی دور جگہ پر ہو تو وہ بعد میں بھی تعزیت کرسکتا ہے ،عورتوں کے لئے تعزیت کی خاطر  بیٹھنا قطعاً ممنوع ہے۔ ایک مرتبہ تعزیت کرنا مسنون ہے، اس کے بعد مکروہ ہے۔

3۔ تعزیت کے لیے آنے والوں کا میت کے گھر والوں  سے کھانا کھانا مکروہ ہے،   بلکہ لوگوں  کو  چاہیے کہ اس کے گھر  والوں کے  لیے کھانے کا انتظام کریں ،البتہ  جو مسافر دور سے تعزیت کے لیے  آئے ہوں، جن کے  لیے اس دن یا ایک دو دن تک واپس لوٹنا ممکن نہ ہو، اور کھانے کا متبادل انتظام نہ ہو، ان کے لیے کھانے کی اجازت ہوگی،  رسم ورواج  کے طور پر   کئی دنوں  تک بیٹھے  مکروہ  ہے۔

4۔" معزی"تعزیت کرنے کے لیے آنے والا اور "معزیٰ الیہ" میت کےاہلِ  خانہ اور اعزّہ و اقاربجن کے پاس لوگ  تعزیت کے لیے آتے ہیں۔ تعزیت،   آنے والوں  کے لیے اجر و ثواب ہے اور میت کے ورثاء کے لیے  تسلی اور صبر و تحمل کا باعث ہے، جس پر ان کو بھی  اجر و ثواب ملے گا۔

5۔ ایصالِ ثواب کی بہتر و بے غبار صورت یہ ہے کہ جو شخص جب چاہے جہاں چاہے جتنا چاہے قرآن کریم ، درود شریف،  نوافل پڑھ کر  یا کسی غریب مسکین محتاج کی ضرورت پوری کرکے مسجد و  مدرسہ وغیرہ میں ضرورت کا سامان دے کر یہ نیت کر لیا کرے کہ :"یا اللہ اس کا ثواب فلاں فلاں کو پہنچا  دیجیے"،  حضور علیہ الصلٰوۃو السلام اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  اسی طرح ایصالِ ثواب فرمایا کرتے تھے۔نیز اس طرح ایصالِ ثواب میں نہ لوگوں کو جمع کرنے کی ضرورت ہے،  نہ کھانے ناشتہ وغیرہ کا انتظام کرنے کی حاجت ہے اور نہ ہی کسی غیر شرعی امر کے ارتکاب کا خطرہ ہے ۔آج کل ایصالِ ثواب کے لیے جو طریقے رائج ہیں مثلاً :مروجہ قل خوانی ، قرآن خوانی ، دعوتیں کرنا، محفلیں منعقد کرنا ، ساتواں ، چالیسواں وغیرہ کا شریعت سے کوئی واسطہ نہیں ، سب بدعت ہیں، لہذا ان سے اجتناب کیا جائے۔

تعزیت کے مسنون طریقہ کا ذکر  نمبر ایک میں  آگیا ہے۔

6۔ معاشرہ میں رائج صورت کی تعیین کی جائے، اس کے بعد اس کا حکم لکھ دیا جائے گا۔باقی شرعی طریقہ مذکورہ بالا سطور میں بیان کردیا گیا ہے۔

سنن النسائی میںہے:

"عن عبد الله بن عمرو قال: بينما نحن نسير مع رسول الله صلى الله عليه وسلم إذ بصر بامرأة لا تظن أنه عرفها، فلما توسط الطريق وقف حتى انتهت إليه، فإذا فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال لها: «ما أخرجك من بيتك يا فاطمة؟»، قالت: ‌أتيت ‌أهل ‌هذا ‌الميت، فترحمت إليهم، وعزيتهم بميتهم۔"

(كتاب الجنائز، ‌‌باب النعي: 4/ 27، ط:مكتب المطبوعات الإسلامية-حلب)

ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے  فرماتے ہیں کہ ایک روز  ہم آپ علیہ الصلٰوۃوالسلام کے ساتھ جارہے تھے اتنے میں آپ نے کسی عورت کو دیکھا،  ہمارے خیال میں آپ نے اس کو پہچانا نہیں ، جب راستے کے درمیان میں پہنچے تو کھڑے ہو گئے، یہاں تک وہ آپ علیہ الصلٰوۃوالسلام  کے پاس آئی تب پتہ چلا کہ وہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ہے، آپ علیہ السلام  نے فرمایا : کس وجہ سے گھر سے نکلی ہو؟ عرض کیا کہ میں اس میت والوں کے گھر تعزیت کے لیے آئی تھی، پھر میں نے ان کے لیے رحمت کی دعا بھی کی۔

فتاوی شامی میںہے:

"(قوله: ويسرع في جهازه)؛ لما رواه أبو داود «عنه صلى الله عليه وسلم لما عاد طلحة بن البراء وانصرف، قال: ما أرى طلحة إلا قد حدث فيه الموت، فإذا مات فآذنوني حتى أصلي عليه، وعجلوا به؛ فإنه لا ينبغي لجيفة مسلم أن تحبس بين ظهراني أهله».  والصارف عن وجوب التعجيل الاحتياط للروح الشريفة؛ فإنه يحتمل الإغماء". 

(کتاب الصلاة ،باب صلاة الجنازۃج:2،ص: 193 ، ط: سعید)

 فتاویہندیہمیںہے:

"ألتعزیة لصاحب المصیبة حسن … ووقتھا من حین یموت إلی ثلاثة أیام ویکرہبعدھا …ویستحب أن یقال لصاحب التعزیة: غفر الله تعالی لمیتك وتجاوز عنه وتغمدہبرحمته ورزقك الصبر علی مصیبته و أجرك علی موته…ولابأس لأھل المصیبة أن یجلسوا فی البیت أو في المسجد ثلاثة أیام والناس یأتونھم ویعزونھم...ولابأس بأن یتخذ لأھل المیت طعام، کذا فی التبیین ولایباح إتخاذ الضیافة عند ثلاثة أیام۔"

(كتاب الصلاة ،الباب الحادي والعشرون في الجنائز  : 1،  167،ط:رشيديه )

مرقاۃالمفاتیح میںہے:

"والمعنى: جاءهم ما يمنعهم من الحزن عن تهيئة الطعام لأنفسهم، فيحصل لهم الضرر وهم لايشعرون. قال الطيبي: دل على أنه يستحب للأقارب والجيران تهيئة طعام لأهل الميت اهـ. والمراد طعام يشبعهم يومهم وليلتهم، فإن الغالب أن الحزن الشاغل عن تناول الطعام لايستمر أكثر من يوم، وقيل: يحمل لهم طعام إلى ثلاثة أيام مدة التعزية۔"

(کتاب الجنائز، باب البکاء علی المیت،الفصل الثاني،ج:4 ،ص :194 ،ط: رشیدیه)

سنن ابی داؤد میںہے:

"عن عائشة قالت: قال رسولُ الله صلى الله عليه وسلم : "من أحْدَثَ في أمْرِنا هذا ما ليس فيه فهو رَدُّ"۔

 (باب فی لزوم السنۃ۷/۱۵، ط: دارالرسالۃالعلمیۃ)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100661

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں