کیا مروّجہ تعزیت پر صرف کی جانے والی رقم ترکہ میں سے ادا کی جائے گی؟اگر ترکہ میں سے ادا کی جائے گی تو یہ اسراف اور فضول خرچی میں آئے گایا نہیں؟
صورتِ مسئولہ میں مروّجہ تعزیت کی صورت کی تعیین کی جائے، اس کے بعد اس کا حکم لکھ دیا جائے گا۔
نیزجس گھر میں میت ہوجائے ان کے ہاں تعزیت کے لیے قرب و جوار سے آئے لوگوں کے لیے باقاعدہ کھانے کا انتظام کرناخلافِ سنت عمل ہے۔البتہ جو افراد دور دراز علاقوں سے میت کے اہلِ خانہ سے تعزیت اور تکفین و تدفین میں شرکت کے لیے آئے ہوں،تو ان کے لیے کھانے کا انتظام کرسکتے ہیں۔
لہذا مذکورہ صورت میں چونکہ ترکہ تمام ورثاء کی مشترکہ ملکیت ہے، اس لیے اگر تمام عاقل وبالغ ورثاء کی اجازت سے ترکہ کی کچھ رقم ان دور دراز سےتعزیت کے لیے آنے والوں کے كھانے پینے پرخرچ کی گئی ہو، تو کچھ حرج نہیں،لیکن اگرورثاء راضی نہ ہوں یا کوئی وارث عاقل وبالغ نہ ہو، تو ان دور دراز سے تعزیت کے لیے آنے والوں پر ترکہ کی رقم خرچ کرنا شرعا جائز نہیں ہوگا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"مطلب في كراهة الضيافة من أهل الميت
وقال أيضا: ويكره اتخاذ الضيافة من الطعام من أهل الميت لأنه شرع في السرور لا في الشرور، وهي بدعة مستقبحة: وروى الإمام أحمد وابن ماجه بإسناد صحيح عن جرير بن عبد الله قال " كنا نعد الاجتماع إلى أهل الميت وصنعهم الطعام من النياحة"
(کتاب الصلاة، باب صلاۃ الجنازۃ، ج: 2، ص:240، ط:سعید)
وفيه ايضا:
"(يبدأ من تركة الميت الخالية عن تعلق حق الغير بعينها كالرهن والعبد الجاني) والمأذون المديون والمبيع المحبوس بالثمن والدار المستأجرة وإنما قدمت على التكفين لتعلقها بالمال قبل صيرورته تركة (بتجهيزه) يعم التكفين۔۔۔(ثم) تقدم (ديونه التي لها مطالب من جهة العباد) ويقدم دين الصحة على دين المرض إن جهل سببه وإلا فسيان كما بسطه السيد، (وأما دين الله تعالى فإن أوصى به وجب تنفيذه من ثلث الباقي وإلا لا ثم) تقدم (وصيته) ولو مطلقة على الصحيح خلافا لما اختاره في الاختيار (من ثلث ما بقي) بعد تجهيزه وديونه وإنما قدمت في الآية اهتماما لكونها مظنة التفريط (ثم) رابعا بل خامسا (يقسم الباقي) بعد ذلك (بين ورثته)."
(كتاب الفرائض، ج:6، ص:759 تا 761، ط:سعيد)
درر الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:
"كل واحد من الشركاء في شركة الملك أجنبي في حصة الآخر ولا يعتبر أحد وكيلا عن الآخر فلذلك لا يجوز تصرف أحدهما في حصة الآخر بدون إذنه...."
(الكتاب العاشر الشركات، الباب الأول، الفصل الثاني، ج3، ص 28، رقم المادة: 1075، ط: دار الجيل)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144611101272
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن