بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تعزیت کی حیثیت ، نیز مرد وخواتین کے تعزیت کرنے کا حکم


سوال

شادی کی تاریخ فائنل ہونے کے بعد کسی فوتگی والے گھر جانا کیساہے ؟ عموماََ مشہور ہے کے تاریخ فائنل ہونے کے بعد نہیں جاتے۔

جواب

واضح رہے کہ کسی مسلمان کے انتقال پر میت کے متعلقین سے تعزیت کرنا ( یعنی ان کو تسلی دینا اور صبر کی تلقین کرنا ) سنت سے ثابت ہے،اور تعزیت کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ میت کی تدفین سے پہلے یا اگر موقع نہ ملے تو تدفین کے بعد میت کے گھر والوں کے یہاں جا کر ان کو تسلی دے، ان کی دل جوئی کرے، صبر کی تلقین کرے،  ان کے اور میت کے حق میں دعائیہ جملے کہے، تعزیت کے الفاظ اور مضمون متعین نہیں ،صبر اور تسلی کے لیے جو الفاظ زیادہ موزوں ہوں وہ جملے کہے، تعزیت کی بہترین دعا یہ ہے:

’’إِنَّ لِلّٰهِ مَا أَخَذَ وَلَهٗ مَا أَعْطٰى، وَكُلُّ شَيْءٍ عِنْدَهٗ بِأَجَلٍ مُّسَمًّى‘‘یا یو ں کہے کہ’’أَعْظَمَ اللّٰهُ أَجْرَكَ وَ أَحْسَنَ عَزَائَكَ وَ غَفَرَ لِمَیِّتِكَ‘‘.

اس سے زائد بھی ایسا مضمون بیان کیا جاسکتا ہے جس سے غم ہلکا ہوسکے اور آخرت کی فکر پیدا ہو۔

اس مسنون تعزیت کے لیے مرد اور وہ خواتین جن كے گھر سے نکلنے کی صورت میں فتنے کا اندیشہ نہ ہو، جا سکتے ہیں،البتہ نوجوان  خواتین  جن کے گھر سے باہر نکلنے میں فتنے کا اندیشہ ہو،ان کے لیے کسی بھی قریبی رشتہ دار  کی تعزیت   کے لیے گھر  سے باہر جانے کی اجازت نہیں ہے ، نوجوان خواتین کے لیے مذکورہ حکم بہر دو  صورت ہے چاہے ان کی شادی کی تاریخ طے شدہ ہو یا نہ ہو،باقی صرف یہ کہنا کہ چونکہ شادی کی تاریخ طے ہو چکی ہے ، اس لیے اب ایسی لڑکی کے لیے کسی فوتگی والے گھر جانا درست نہیں، تو یہ محض اک باطل خیال اور  رسم ہے جس کی شریعت میں کوئی حقیقت نہیں۔

حدیث شریف میں حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

"عبد اللہ بن أبي بكر بن محمد بن عمرو بن حزم، يحدث عن أبيه، عن جده، عن النبي صلى اللہ عليه وسلم أنه قال: ما من مؤمن يعزي أخاه بمصيبة، إلا كساه اللہ سبحانه من حلل الكرامة يوم القيامة."

(سنن ابن ماجہ:۱؍۱۱۵، رقم الحدیث:۱۶۰۱، کتاب الجنائز، باب ما جاء في ثواب من عزى مصابا، ط: دیوبند)

"عن عبد اللہ، عن النبي صلى اللہ عليه وسلم قال: من عزى مصابا فله مثل أجره."

(سنن الترمذي:۱؍۲۰۵، رقم الحدیث: ۱۰۷۳،أبواب الجنائز،  باب ما جاء في أجر من عزى مصابا،ط:دیوبند)

فتاوی شامی میں ہے:

"قال في شرح المنية: وتستحب التعزية للرجال والنساء اللاتي لا يفتن، لقوله - عليه الصلاة والسلام - :من عزى أخاه بمصيبة كساه اللہ من حلل الكرامة يوم القيامة. رواه ابن ماجه ،وقوله - عليه الصلاة والسلام -:من عزى مصابا فله مثل أجره.  رواه الترمذي وابن ماجه. والتعزية أن يقول: أعظم اللہ أجرك، وأحسن عزاءك، وغفر لميتك. اهـ."

(رد المحتار علی الدر المختار: 240/2 ،باب صلاۃ الجنائز،قبیل:مطلب في الثواب على المصيبة،ط: دار الفکر)

حاشية الطحطاوی میں ہے:

"وتستحب التعزية للرجال والنساء اللاتي لا يفتن.

(قوله:تستحب التعزية )ويستحب أن يعم بها جميع أقارب الميت إلا أن تكون امرأة شابة."

(کتاب الصلوٰۃ،باب احکام الجنائز،ص:618،ط،:قدیمی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144405101847

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں