بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بینک ، اسکول اور دیگراداروں کا تاخیر سے رقم کی ادائیگی پر مالی جرمانہ لگانا


سوال

بنک سے قسطوں پر گاڑی وغیرہ خریدنے کے مسئلے میں آپ حضرات کی طرف سے یہ شرط بتائی گئی تھی کہ قسط کی ادائیگی میں تاخیر پر جرمانہ عائد نہ ہو، حالاں کہ جو ادارہ بھی اپنی سروسز دے رہا ہو، وہ رقم کی ادائیگی میں تاخیر پر جرمانہ عائد کرتا ہی ہے، جیسے اسکول کی فیس اور بجلی گیس وغیرہ کے بل میں ہوتا ہے،پھر وہ کیوں جائز ہیں؟

جواب

واضح رہےکہ شرعا مالی جرمانہ وصول کرنا جائز نہیں ہے ، چاہے وصول کرنے والا بینک ہو یا کوئی بھی دوسرا  ادارہ جو  اپنی خدمات پیش کررہا ہو،لہذا صورتِ مسئولہ میں  اسکول فیس یا بجلی اور گیس کے بل کی تاخیرسے ادائیگی پر جو جرمانہ وصول کیا جاتاہے وہ بھی مالی جرمانہ  میں شامل ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ہے  ، لہذا اصل حکم تو یہ ہے کہ اسکول والوں اور بجلی کے محکمے کو آگاہ کردیا جائے کہ تاخیر پر ادائیگی کی صورت میں جرمانہ وصول نہ کیاجائے ، اس کے باوجود اگر وہ جرمانہ وصول کرتے ہیں تو اس کا گناہ  صارف کو نہیں ہوگا ، کیوں کہ وہ اس سلسلے میں مجبور ہے ، لیکن بینک سے گاڑی لینامجبوری نہیں، جس کی وجہ سےتاخیر پر جرمانہ کی شرط کی وجہ سے یہ معاملہ درست نہیں ہوگا ۔

مجمع الانہر میں ہے:

"و لایکون التعزیر بأخذ المال من الجاني في المذهب."

(مجمع الانہر ، کتاب الحدود،  باب التعزیرج:1،ص :609،ط:بیروت)

 فتاوی شامی ہے :

"و الحاصل أنّ المذهب عدم التعزیر بأخذ المال."

( باب التعزیر، مطلب فی التعزیر بأخذ المال،ج: 4، ص: 61،ط:سعید)

وفیہ ایضا:

"لایجوز لأحد من المسلمین أخذ مال أحد بغیر سبب شرعي."

(باب التعزیر، مطلب فی التعزیر بأخذ المال،ج: 4، ص: 61،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم  


فتوی نمبر : 144308101850

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں