تعزیر کی تعریف کیا ہے؟
ایسے جرائم جن کی سزا کی تفصیل قرآنِ کریم یا احادیث میں مذکور نہ ہو، ان کی سزا کے لیے وقت کے حکمران اور اسلامی عدالت کے قاضی اور جج کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ ان جرائم کی روک تھام کے لیے کوئی سزا تجویز کرسکتے ہیں، اس سزا کو "تعزیر " کہا جاتا ہے ، لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ وہ شرعی حدّ سے کم درجے کی سزا ہو۔ بعض صورتوں میں تعزیرًا قتل کی سزا بھی منقول ہے، لیکن اس کی اَصل اَحادیث سے ثابت ہے، صرف قاضی یا حاکم کی رائے پر مفوّض نہیں ہے۔
فتح القدیر میں ہے:
"وَ التَّعْزِيرُ تَأْدِيبٌ دُونَ الْحَدِّ، وَ أَصْلُهُ مِنْ الْعَزْرِ بِمَعْنَى الرَّدِّ وَالرَّدْعِ. وَ هُوَ مَشْرُوعٌ بِالْكِتَابِ، قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: {فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلا} [النساء: 34] أَمَرَ بِضَرْبِ الزَّوْجَاتِ تَأْدِيبًا وَتَهْذِيبًا. وَ فِي الْكَافِي قَالَ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ: «لَاتَرْفَعْ عَصَاك عَنْ أَهْلِك» وَرُوِيَ «أَنَّهُ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ عَزَّرَ رَجُلًا قَالَ لِغَيْرِهِ يَا مُخَنَّثُ». وَ فِي الْمُحِيطِ:رُوِيَ عَنْهُ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ قَالَ: «رَحِمَ اللَّهُ امْرَأً عَلَّقَ سَوْطَهُ حَيْثُ يَرَاهُ أَهْلُهُ» وَ أَقْوَى مِنْ هَذِهِ الْأَحَادِيثِ قَوْلُهُ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ: «لَايُجْلَدُ فَوْقَ عَشْرٍ إلَّا فِي حَدٍّ» وَسَيَأْتِي.وَقَوْلُهُ: «وَاضْرِبُوهُمْ عَلَى تَرْكِهَا لِعَشْرٍ» فِي الصِّبْيَانِ، فَهَذَا دَلِيلُ شَرْعِيَّةِ التَّعْزِيرِ وَأَجْمَعَ عَلَيْهِ الصَّحَابَةُ."
(فتح القدير، كتاب الحدود، باب حد القذف، فصل في التعزير، ٥/ ٣٤٥)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144207200402
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن