بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تیمم کیے ہوئے شخص کا با وضو افراد کو نماز پڑھانا


سوال

سفر  کے  دوران ایک  علاقے میں نماز کا وقت ہوگیا اور وہاں پانی موجود نہ تھا،  میں نے تیمم کیا،  میرے ساتھ اور لوگوں کا پہلے سے وضو تھا تو ان لوگوں نے مجھے امامت کے لیے کھڑا کیا تو کیا میرا امامت کرنا درست ہوا یا ان میں کسی اور کو امامت کرنی  چاہیے تھی؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں  اگر نماز پڑھانے تک سائل کو وضو کے لیے پانی نہیں ملا تھا تو سائل کی امامت صحیح ہو گئی، البتہ بہتر یہ تھا کہ ایسے شخص کو آگے کیا جائے جس نے وضو کیا ہو۔یہ بھی ملحوظ رہے کہ تیمم  اس وقت درست ہوتا ہے جب اس کی شرائط پائی جا رہی ہوں۔ 

امداد الاحکام میں ہے:

"اگر امام نے کسی عذر سے تیمم کیا ہے، تو شیخین ؒ (امام ابو حنیفہؒ اور امام ابو یوسفؒ) کے نزدیک اس کی امامت صحیح ہے، اور امام محمد ؒ کے نزدیک  صحیح نہیں ہے،  اس لیے بہتر یہ ہے کہ کسی اور متوضی (وضو   کیے ہوئے) شخص کو امام بنایا جاوے۔ البتہ اگر اور کوئی شخص امامت کے قابل موجود نہ ہو تو خود ہی پڑھاوے، اور نمازِ جنازہ میں بالاتفاق امامتِ متیمم جائز ہے۔"

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1 / 588):

"(وصح اقتداء متوضئ) لا ماء معه (بمتيمم)

(قوله: وصح اقتداء متوضئ بمتيمم) أي عندهما، بناء على أن الخليفة عندهما بين الآلتين وهما الماء والتراب والطهارتان سواء.

وقال محمد: لايصح في غير صلاة الجنازة بناء على أن الخليفة عنده بين الطهارتين، فيلزم بناء القوي على الضعيف، وتمامه في الأصول بحر (قوله: لا ماء معه) أي مع المقتدي؛ أما لو كان معه ماء فلا يصح الاقتداء، وهذا القيد مبني على فرع إذا رأى المتوضئ المقتدي بمتيمم ماء في الصلاة لم يره الإمام فسدت صلاته لاعتقاده فساد صلاة إمامه لوجود الماء. وعند زفر لا تفسد، وينبغي حمل الفساد على ما إذا ظن علم إمامه به لأن اعتقاده فساد صلاة إمامه بذلك، كذا في الفتح، وأقره في الحلية والبحر، ونازعه في النهر، وتبعه الشيخ إسماعيل بأن الزيلعي علل البطلان بأن إمامه قادر على الماء بإخباره اهـ أي فكان اعتقاده فساد صلاة إمامه مبنيا على القدرة المذكورة. وينبغي كما قال في الحلية تقييد المسألة بما إذا كان تيممه لفقد الماء، أما لو كان لعجزه عن استعماله لمرض ونحوه يصح الاقتداء مطلقا لأن وجود الماء حينئذ لا يبطل تيممه. [تنبيه]."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207201119

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں