بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تیمم کے چند مسائل


سوال

1۔تیمم کی مشروعیت کونسی ہجری میں ہوئی اور کیسے ہوئی؟

2۔تیمم کے ارکان یعنی فرائض اور شروط اور بقدرِ ضرورت ہر ایک کی تفصیل بیان فرمائیں، نیز تیمم کی سنتیں بھی بیان فرمائیں، نیز تیمم کے لیے ایک شرط یہ ہے کہ جس چیز پر تیمم کیا جائے، وہ زمین کی جنس میں سے ہو، کیا یہ شرط سنگِ مرمر میں بطریقِ کامل پائی جاتی ہے؟

3۔ ایک ہی تیمم سے مختلف اوقات کی نمازیں ادا کی جاسکتی ہیں یا نہیں؟ مثلاً  کسی نے ظہر کی نماز کے لیے تیمم کیا، تو اس تیمم سے عصر مغرب عشاء کی نمازیں ادا کی جاسکتی ہیں یا نہیں؟ نیز ایک ہی تیمم سے کئی مختلف عبادات ادا ہوسکتی ہیں؟ مثلاً:نماز، تلاوتِ قرآن، مسِ قرآن ، دخول، مسجد، نمازِ جنازہ وغیرہ، اگر کسی نے ان عبادات میں کسی ایک کے لیے تیمم کیا، تو اسی تیمم سے دوسری نوع کی عبادت ادا کی جاسکتی ہے یا نہیں؟

4۔ ایک مٹی یا ایک ہی پتھر پر کئی آدمی تیمم کرسکتے ہیں یا نہیں؟

5۔ تیمم کا مسنون طریقہ بیان فرمائیں۔

جواب

1۔تیمم کی مشروعیت  راجح قول کے مطابق سن پانچ ہجری میں ہوئی ہے اور اس کا سبب یہ تھا کہ غزوہ بنی مصطلق میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ایک ہار گُم ہوگیا تھا، جس کی وجہ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھ آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی اس ہار کی تلاش میں ٹھہرے رہے اور  لوگوں کے پاس پانی موجود نہیں تھا، پھر جب صبح کا وقت قریب ہوا اور لوگوں کے پاس پانی نہیں تھا، تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے تیمم کا حکم نازل فرمایا۔

2۔ تیمم کے دوفرائض ہیں: 1۔ایک مرتبہ پاک مٹی پر ہاتھ مار کر سارے چہرہ پر ہاتھ پھیرنا،  2۔ دوسری مرتبہ پھر ہاتھ مار کر دونوں ہاتھوں پر کہنیوں تک ہاتھ پھیرنا۔

اور تیمم کی شرائط چھ ہیں: 1۔نیت کرنا، 2۔ہاتھوں کا پھیرنا، 3۔تین یا زائد انگلیوں کا ستعمال، 4۔مٹی یا زمین کی جنس سے تعلق رکھنے والی کسی چیز سے تیمم کرنا، 5۔جس چیز (مٹی وغیرہ) سے تیمم کیا جارہا ہو اس کا پاک ہونا،

6۔پانی کا نہ ہونا ، یا پانی تو موجود ہو لیکن اس کے استعمال پر قادر نہ ہونا۔

تیمم کی سنتیں آٹھ ہیں: 1۔شروع میں بسم اللہ پڑھنا، 2۔ہاتھوں کوہتھیلیوں کی طرف سے  مٹی (یا اس کی جنس پر) مارنا، 3۔دونوں ہاتھ مٹی پر رکھنے کے بعد آگے کھینچنا، 4۔پھر دونوں ہاتھوں کو مٹی پر رکھتے ہوئے پیچھے کو کھینچنا، 5۔پھر دونوں ہاتھوں کو جھاڑنا، 6۔ہاتھ مارتے وقت انگلیوں کو کشادہ کرنا، 7۔ترتیب کا خیال رکھنا، 8۔پے درپے کرنا۔

واضح رہے کہ تیمم ہر اس چیز سے جائز ہے، جو زمین کی جنس میں سے ہو، تو چوں کہ سنگ مرمر بھی زمین کی جنس میں سے  ہی ہے، لہٰذا اس سے تیمم کرنا جائز ہے۔

3۔ واضح رہے کہ تیمم وضو کے قائم مقام ہے، تو جس طرح ایک وضو سے کئی نمازیں اور دیگر عبادات ادا کی جاسکتی ہیں، اسی طرح ایک تیمم سے کئی نمازیں اور  دیگر عبادات ادا کی جاسکتی ہیں۔

4۔ ایک ہی مٹی یا ایک ہی پتھر سے کئی افراد کا تیمم کرنا جائز ہے۔

5۔ تیمم کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے تیمم کی نیت کی جائے، پھر دونوں ہاتھوں کو زمین پر ایک مرتبہ مار کر جھاڑ لیا جائے، اس کے دونوں ہاتھوں کو چہرہ پر پھیر لیا جائے اس طرح کہ کوئی جگہ باقی نہ رہے  اس کے بعد پھر  دوبارہ دونوں ہاتھوں کو زمین پر مار  کر جھاڑ لیا جائے اور پھر دونوں ہاتھوں کا  کہنیوں سمیت مسح کر لیا  اور انگلیوں کے درمیان بھی خلال کرلیا جائے اور کوئی جگہ بھی باقی نہ رہے۔

صحیح بخاری میں ہے:

"حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن عبد الرحمن بن القاسم، عن أبيه، عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، قالت: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في بعض أسفاره، حتى إذا كنا بالبيداء أو بذات الجيش انقطع عقد لي، فأقام رسول الله صلى الله عليه وسلم على التماسه، وأقام الناس معه وليسوا على ماء، فأتى الناس إلى أبي بكر الصديق، فقالوا: ألا ترى ما صنعت عائشة؟ أقامت برسول الله صلى الله عليه وسلم والناس وليسوا على ماء، وليس معهم ماء، فجاء أبو بكر ورسول الله صلى الله عليه وسلم واضع رأسه على فخذي قد نام، فقال: حبست رسول الله صلى الله عليه وسلم والناس، وليسوا على ماء، وليس معهم ماء، فقالت عائشة: فعاتبني أبو بكر، وقال: ما شاء الله أن يقول وجعل يطعنني بيده في خاصرتي، فلا يمنعني من التحرك إلا مكان رسول الله صلى الله عليه وسلم على فخذي، «فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم حين أصبح على غير ماء، فأنزل الله آية التيمم فتيمموا»، فقال أسيد بن الحضير: ما هي بأول بركتكم يا آل أبي بكر، قالت: فبعثنا البعير الذي كنت عليه، فأصبنا العقد تحته."

(كتاب التيمم، ج:1، ص:74، ط:دار طوق النجاة)

عمدۃ القاری میں ہے:

"قال ابن عبد البر في (التمهيد) يقال: إنه كان في غزوة بني المصطلق، وجزم بذلك في كتاب (الاستذكار) ، وورد ذلك عن ابن سعد وابن حبان قبله، وغزوة بني المصطلق هي: غزوة المريسيع التي كان فيها قصة الإفك. قال أبو عبيد البكري في حديث الإفك: (فانقطع عقد لها من جزع ظفار، فحبس الناس ابتغاؤه) . وقال ابن سعد: (خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى المريسيع يوم الإثنين لليلتين خلتا من شهر شعبان سنة خمس) ، ورجحه أبو عبد افي (الإكليل)."

(كتاب التيمم، ج:4، ص:4، ط:دار إحياء التراث العربي)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"(و منها الصعيد الطيب) يتيمم بطاهر من جنس الأرض. كذا في التبيين كل ما يحترق فيصير رمادا كالحطب والحشيش ونحوهما أو ما ينطبع ويلين كالحديد والصفر والنحاس والزجاج وعين الذهب والفضة ونحوها فليس من جنس الأرض وما كان بخلاف ذلك فهو من جنسها. كذا في البدائع. فيجوز التيمم بالتراب والرمل والسبخة المنعقدة من الأرض دون الماء والجص والنورة والكحل والزرنيخ والمغرة والكبريت والفيروزج والعقيق والبلخش والزمرد والزبرجد. كذا في البحر الرائق وبالياقوت والمرجان. كذا في التبيين وبالآجر المشوي وهو الصحيح. كذا في البحر الرائق وهو ظاهر الرواية. هكذا في التبيين وبالخزف إلا إذا كان عليه صبغ ليس من جنس الأرض. كذا في خزانة الفتاوى. وبالحجر عليه غبار أو لم يكن بأن كان مغسولا أو أملس مدقوقا أو غير مدقوق كذا في فتاوى قاضي خان."

(كتاب الطهارة، ج:1، ص:26، 27، ط:دار الفكر)

شرح منیۃ المصلی میں ہے:

"أما ركنه فضربتان: ضربة للوجه وضربة للذراعين."

(فصل في التيمم، ص:54، ط:رحمانيه)

الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:

"و سننه ثمانية: الضرب بباطن كفيه، و إقبالهما، و إدبارهما، و نفضهما؛ و تفريج أصابعه، و تسمية، و ترتيب و ولاء".

(كتاب الطهارة، ج:2، ص:231، ط:سعيد)

"و شرطه ستة: النية، و المسح، و كونه بثلاث أصابع فأكثر، و الصعيد، و كونه مطهرًا، و فقد الماء."

(كتاب الطهارة، ج:2، ص:230، ط:سعيد)

وفيه أيضا:

"(وجاز قبل الوقت ولأكثر من فرض، و) جاز (لغيره) كالنفل؛ لأنه بدل مطلق عندنا لا ضروري:

(قوله: وجاز قبل الوقت) أقول: بل هو مندوب كما هو صريح عبارة البحر، وقل من صرح به رملي (قوله: وجاز لغيره) أي لغير الفرض (قوله: لأنه بدل إلخ) أي هو عندنا بدل مطلق عند عدم الماء ويرتفع به الحدث إلى وقت وجود الماء، وليس ببدل ضروري ومبيح مع قيام الحدث حقيقة كما قال الشافعي، فلايجوز قبل الوقت و لايصلي به أكثر من فرض عنده، لكن اختلف عندنا في وجه البدلية فقالا: بين الآلتين: أي الماء والتراب وقال محمد: بين الفعلين: أي التيمم والوضوء، ويتفرع عليه جواز اقتداء المتوضئ بالمتيمم فأجازاه ومنعه وسيأتي بيانه في باب الإمامة إن شاء الله تعالى، وتمامه في البحر".

(کتاب الطهارۃ، ج:1، ص:241، ط:سعید)

البناية  شرح الهداية ميں ہے:

"ولو ‌تيمم ‌جماعة بحجر واحد أو لبنة واحدة أو أرض جاز."

(كتاب الطهارة، باب التيمم، ج:1، ص:550، ط:دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402100330

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں