بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

طے شدہ وقت سے پہلے کرایہ داری ختم کرنا


سوال

اگر اپنی دکان کرایہ پر دیں اور معاہدہ میں طے ہو دکان خالی کرنے سے قبل کم از کم تین ماہ پہلے کرایہ دار بتائے گا اور وہ دوسرے ماہ ہی خالی کرنے کا بول دے تو اس صورت میں ایڈوانس کی واپسی اور کرایہ کی لین دین کی کیا صورت ہوگی؟

جواب

صورت مسئولہ میں اگر دکان کرایہ پر دیتے وقت یہ معاہدہ ہوا تھا  کہ کرایہ دار دکان خالی کرنے سے تین مہینے پہلے مالک دکان کو اطلاع کرے گا،تو اس صورت میں کرایہ دار کو چاہیے کہ وہ کم از کم تین مہینے سے پہلے خالی نہ کرے تاکہ معاہدہ کی پاسداری ہوجائے اور مالک دکان کو ضرر نہ ہو، لیکن اگر کرایہ دار کو واقعی کوئی شرعی عذر ہے جس کی بناء پر وہ دوسرے ہی مہینے یہ کرایہ داری کا معاملہ ختم کرنا چاہتا ہے تو مالک دکان کو چاہیے کہ اس کا عذر قبول کرلے اور یہ معاملہ ختم کر کے اس سے جو کچھ ایڈوانس وغیرہ واپس لیا ہے وہ اس کو واپس کردے۔ اور  ایسی صورت میں جتنے عرصہ کرایہ دار نے دکان اپنے پاس رکھی ہے، صرف اسی عرصے کا کرایہ اس پر لازم ہوگا۔

بدائع الصنائع میں ہے :

"وأما صفة الإجارة فالإجارة عقد لازم إذا وقعت صحيحة عرية عن خيار الشرط والعيب والرؤية عند عامة العلماء، فلاتفسخ من غير عذر".وقال شريح: إنها غير لازمة وتفسخ بلا عذر؛ لأنها إباحة المنفعة فأشبهت الإعارة، ولنا أنها تمليك المنفعة بعوض فأشبهت البيع وقال - سبحانه وتعالى-: {أوفوا بالعقود} [المائدة: 1] والفسخ ليس من الإيفاء بالعقد وقال عمر: - رضي الله عنه - " البيع صفقة أو خيار " جعل البيع نوعين: نوعا لا خيار فيه، ونوعا فيه خيار، والإجارة بيع فيجب أن تكون نوعين، نوعا ليس فيه خيار الفسخ، ونوعًا فيه خيار الفسخ؛ ولأنها معاوضة عقدت مطلقة فلاينفرد أحد العاقدين فيها بالفسخ إلا عند العجز عن المضي في موجب العقد من غير تحمل ضرر كالبيع."

(کتاب الاجارۃ ، فصل فی حکم الاجارۃ ،4/ 201،دار الکتب العلمیۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509100655

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں