زید دکاندار ہے، سرکاری دفتر والے اس سے دفتر کے لیے پچاس ہزار روپے کا سامان خریدنے آتے ہیں اور اس سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ستر ہزار روپے کا بل بنا کر دیں۔ وجہ وہ اس کی یہ بتاتے ہیں کہ جب اکاؤنٹ آفس سے یہ بل کیش کروایا جائے گا تو اکاؤنٹ آفس والے ٹیکسز کی مد میں بیس ہزار روپے کاٹ کر تیس ہزار روپے ہمیں ادا کرتے ہیں؛ لہذا ہم اس نقصان سے بچنے کے لیے ستر ہزار کا بل بنواتے ہیں؛ تاکہ اکاؤنٹ آفس سے ہمیں پوری رقم پچاس ہزار روپے وصول ہو۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا زید کے لیے جائز ہے کہ وہ پچاس ہزار روپے وصول کر کے ستر ہزار روپے کا بل بنائے؟
صورتِ مسئولہ میں زید کے لیے 50 ہزار روپے کے سامان کے لیے 70 ہزار روپے کا بل بنانا جائز نہیں ہے، یہ جھوٹ اور دھوکا ہے۔
زید کے جن خریداروں کو ٹیکس سے بچنا مطلوب ہے، انہیں چاہیے کہ متعلقہ شعبے سے رابطہ کرکے یہ ٹیکس ہٹوائیں۔ اگر یہ بات ان کے بس میں نہ ہو اور ٹیکس ظالمانہ ہو تو اس سے بچنے کی جائز تدبیر تو اختیار کی جاسکتی ہے، جھوٹ اور دھوکے کا راستہ اختیار نہیں کیا جاسکتا۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144209201776
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن