بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 ربیع الثانی 1446ھ 10 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

ٹیکس سے بچنے کی غرض سے پرائزبانڈ کی انعامی رقم کو خریدنے کا شرعی حکم (بیع الدین من غیر من علیہ الدین)


سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص مثلاً زید نے خود کو فائلر کروالیا ہے اور اب زید اپنا پیسہ وائٹ کرنا چاہتا ہے، تاکہ کچھ پراپرٹی خرید سکے ،لیکن اگر زید گورنمنٹ کو اپنا کاروبار شو کرتا ہے تو FBR والے اتنا ٹیکس اس پر لاگو کرتے ہیں جتنی اس کی بچت بھی نہیں، اب زید کے وکیل نے زید کو یہ حیلہ بتایا ہے کہ جس شخص کا پرائز بانڈ میں انعام نکلا ہے، اس سے وہ پرائز بانڈ لے کر اس کے عوض میں انعام کی رقم اور پرائز بانڈ کی قیمت اسے ادا کر دو، پھر اس پرائز بانڈ کا انعام آپ خود وصول کر کے اپنے اکاؤنٹ میں ڈال لو، مثلاً عمرو کا 750 والے بانڈ میں 10000 کا انعام نکلا، بینک نے ٹیکس کاٹ کر 8500 انعام کی رقم اور 750 بانڈ کی قیمت دینی ہے، یعنی عمرو کو کل 9250 ملنے ہیں، اب زید کو کرنا یہ ہے کہ 9250 عمرو کو دے کر بانڈ لے لے اور پھر اس بانڈ کا انعام اور اس کی قیمت یعنی 9250 بینک سے خود وصول کر کے اپنے اکاؤنٹ میں ڈال لے تو اس طرح زید کے اس پیسہ کا ٹیکس ادا ہوگیا، زید کو مزید اس پیسے پر کوئی ٹیکس نہیں دینا، اب پوچھنا یہ ہے کہ ویسے تو بانڈ کا انعام سودی معاملہ ہونے کی بنا پر جائز نہیں تو کیا اس طرح کسی اور کا انعام برابر قیمت میں خریدنا جائز ہے؟ اور اگر جائز ہے تو وہ بروکر جو عمرو سے بونڈ خریدے گا اور پھر جو کاغذی کروائی فوٹوکاپی لکھت پڑھت آنا جانا ان سب کے وہ 100 روپے فی بانڈ علیحدہ سے مانگتا ہے تو کیا یہ سو روپے اس کو دینا جائز ہے ؟ براہِ مہربانی شرعاً راہ نمائی فرمائیں۔

وضاحت: فائلر وہ شخص ہوتا ہے جو ہر سال ٹیکس گوشوارے جمع کرتا ہے، جب کہ نان فائلر اس کو کہتے ہیں جو انکم ٹیکس گوشوارے جمع نہیں کراتا۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں زید کا عمرو سے پرائز بانڈ کی انعامی رقم (9250 روپے) کے بدلےبغیر کوئی اضافی رقم کے  اتنی ہی قیمت (یعنی 9250 روپے) میں بھی خریدنا شرعاً جائز نہیں ہے؛ کیوں کہ عمرو کو بینک کی طرف سے جو انعامی رقم مستقبل میں ملے گی وہ فی الحال بینک کے ذمّہ دین (قرض)   حکم میں ہے، اس لحاظ سے  زید دائن اور بینک مدیون ہے اوردائن  کا مدیون کے علاوہ تیسرے شخص کے ساتھ  دین (قرض) کی خرید و فروخت کرنا  خواہ نقد رقم کے بدلے ہو یا ادھار، خواہ برابرقیمت میں ہو اضافی قیمت میں  ہو شرعاً جائز نہیں ہے،نیز پرائز بانڈ پر ملنے والی انعامی رقم سود ہے،اسے  ثواب کی نیّت کے بغیر صدقہ کرنا ضروری ہے، اس لیے عمرو کے لیے بھی (اپنی اصل رقم 750 روپےکے علاوہ)اس انعامی رقم کو  کسی بھی طرح  خود استعمال کرنا یا آگے  فروخت کرنا اورلین دین کرناشرعاً جائز نہیں ہے۔

بدائع الصنانع میں ہے:

"ولا ينعقد بيع الدين من غير من عليه الدين؛ لأن الدين إما أن يكون عبارة عن مال حكمي في الذمة، وإما أن يكون عبارة عن فعل تمليك المال وتسليمه، وكل ذلك غير مقدور التسليم في حق البائع، ولو شرط التسليم على المديون لا يصح أيضا؛ لأنه شرط التسليم على غير البائع فيكون شرطا فاسدا فيفسد البيع، ويجوز بيعه ممن عليه؛ لأن المانع هو العجز عن التسليم، ولا حاجة إلى التسليم ههنا، ونظير بيع المغصوب أنه يصح من الغاصب، ولا يصح من غيره إذا كان الغاصب منكرا، ولا بينة للمالك."

(کتاب البیوع، فصل في الشرط الذي يرجع إلى المعقود عليه : ج: 5، ص: 138، ط: دار الکتب العلمیة)

الدرالمختار میں ہے:

"وأفتى المصنف ببطلان بيع الجامكية، لما في الأشباه بيع الدين إنما يجوز من المديون."

وفي رد المحتار :

" وعبارة المصنف في فتاواه سئل عن بيع الجامكية: وهو أن يكون لرجل جامكية في بيت المال ويحتاج إلى دراهم معجلة قبل أن تخرج الجامكية فيقول له رجل: بعتني جامكيتك التي قدرها كذا بكذا، أنقص من حقه في الجامكية فيقول له: بعتك، فهل البيع المذكور صحيح أم لا لكونه بيع الدين بنقد؟ أجاب إذا باع الدين من غير من هو عليه كما ذكر لا يصح."

(کتاب البیوع، فروع في البیع، مطلب في بیع الجامکیة: ج:4، ص: 517، ط: سعید)

احکام القرآن للقرطبیؒ میں ہے:

"قال علماؤنا إن سبيل التوبة مما بيده من الأموال الحرام إن كانت من ربا فليردها على من أربى عليه، ومطلبه إن لم يكن حاضرا، فإن أيس من وجوده فليتصدق بذلك عنه. وإن أخذه بظلم فليفعل كذلك في أمر من ظلمه. فإن التبس عليه الأمر ولم يدر كم الحرام من الحلال مما بيده، فإنه يتحرى قدر ما بيده مما يجب عليه رده، حتى لا يشك أن ما يبقى قد خلص له فيرده من ذلك الذي أزال عن يده إلى من عرف ممن ظلمه أو أربى عليه. فإن أيس من وجوده تصدق به عنه."

(سورة البقرة، رقم الآية:278/79، ج:3، ص:348، ط:دار إحیاء التراث العربی)

معارف السنن شرح سنن الترمذی  میں ہے:

"قال شیخنا: ویستفاد من کتب فقهائنا کالهدایة وغیرها: أن من ملك بملك خبیث، ولم یمكنه الرد إلى المالك، فسبیله التصدقُ علی الفقراء ... قال: و الظاهر أن المتصدق بمثله ینبغي أن ینوي به فراغ ذمته، ولایرجو به المثوبة."

(أبواب الطهارة، "شرح قوله ولاصدقة من غلول"، مسئلة:الملك الخبيث يتصدق به، ج:1، ص:94، ط: مجلس الدعوة والتحقيق الإسلامى)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144404101401

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں