بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ٹیکس ادارے میں ملازمت اختیار کرنا


سوال

ٹیکس ادارے جیسے کے ایف بی آر کے سیلز ٹیکس ڈیپارٹمنٹ میں اسسٹنٹ کمشنر کی نوکری جائز ہے؟

ٹیکس دہندگان کو نوٹس جاری کرنا، ان سے ٹیکس کی وصولی کرنا ، اگر ٹیکس نہ دیں تو زبردستی ان کے بینک اکاؤنٹ سے پیسے نکلوا کر حکومتی خزانے میں جمع کرانا ، تاخیر سے جمع کرانے پر حکومت کے پہلے سے طے شدہ چارج کی اضافی رقم لینا بھی شامل ہے۔

جواب

واضح  رہے کہ شرعا  ہر وہ نوکری جائز ہےجو اسلامی تعلیمات سے متصادم نہ ہو،اور ہر وہ نوکری ناجائز ہے جس میں ناجائز امور سر انجام دیے جاتے ہیں،جس میں دوسروں کا مال ناحق زبردستی ان سے وصول کیا جاتا ہو،ان پر مالی جرمانہ عائد کیا جاتا ہو،لوگوں پر ظلم کیا جاتا ہے، قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ :ایک دوسرے کا مال نا حق ناکھاؤ۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ نوکری میں لوگوں کا مال زبردستی ان کے اکاؤنٹ سے نہ نکالا جائے ،اور ٹیکس کی ادائے گی میں تاخیر کرنے کی صورت میں ان پر اضافی چارجز نہ لگائے جائیں،اور اس طرح کے علاوہ دیگر خلاف شرع امور کا ارتکاب نہ کیا جائے تو یہ نوکری کرنا جائز ہوگا،بصورتِ دیگر اس سے اجتناب لازمی ہے۔

قرآن کریم میں ہے:

وَ لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَ تُدْلُوْا بِهَاۤ اِلَى الْحُكَّامِ لِتَاْكُلُوْا فَرِیْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(سورة البقرة،188)

معارف القرآن میں مفتی شفیع صاحب فرماتے ہیں :

اسلامی نظام معاش ہی دنیا میں امن عام قائم کرسکتاہے:
شریعت اسلام نے حلال وحرام اور جائز وناجائز کا جو قانون بنایا ہے وہ صراحۃ وحی الہیٰ سے ہے....اس قانون کی ہر دفعہ میں اس کا لحاظ رکھا گیا ہے کہ کوئی انسان ضروریات زندگی سے محروم نہ رہے بشرطیکہ وہ اپنی جدوجہد ان کی تحصیل میں خرچ کرے اور کوئی انسان دوسروں کے حقوق غصب کرکے یا دوسروں کو نقصان پہنچا کر سرمایہ کو محدود افراد میں مقید نہ کردے انتقال ملکیت خواہ بعدالموت وراثت کے قانون الہیٰ کے مطابق ہو یا پھر بیع وشراء وغیرہ کے ذریعہ فریقین کی رضا مندی سے ہو مزدوری ہو یا کسی مال کا معاوضہ دونوں میں اس کو ضروری قرار دیا گیا کہ معاملہ میں کوئی دھوکہ ، فریب ، یا تلبیس نہ ہو اور کوئی ایسا ابہام اور اجمال نہ رہے جس کی وجہ سے باہمی منازعت کی نوبت آئے،
نیز اس کی بھی رعایت رکھی گئی ہے کہ فریقین جو رضامندی دے رہے ہیں وہ حقیقی رضامندی ہو کسی انسان پر دباؤ ڈال کر کوئی رضا مندی نہ لی گئی ہو شریعت اسلام میں جتنے معاملات باطل یا فاسد اور گناہ کہلاتے ہیں ان سب کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ ان میں وجوہ مذکور میں کسی وجہ سے کہیں کسی کا حق غصب ہوتا ہے کہیں کسی کو نقصان پہنچا کر اپنا نفع کیا جاتا ہے کہیں حقوق عامہ میں ناجائز تصرف ہوتا ہے، سود قمار وغیرہ کو حرام قرار دینے اہم وجہ یہ ہے کہ وہ حقوق عامہ کے لئے مضر ہیں ان کے نتیجہ میں چند افراد پلتے بڑہتے ہیں اور پوری ملت مفلس ہوتی ہے ایسے معاملات فریقین کی رضامندی سے بھی اس لئے حلال نہیں کہ وہ پوری ملت کے خلاف ایک جرم ہے آیت مذکورہ ان تمام ناجائز صورتوں پر حاوی ہے...
دوسری بات قابل غور یہ ہے کہ اس ارشاد خداوندی کے الفاظ عام ہیں کہ باطل اور ناجائز طریق سے کسی کا مال نہ کھاؤ اس میں کسی کا مال غصب کرلینا بھی داخل ہے چوری، اور ڈاکہ بھی جن میں دوسرے پر ظلم کرکے جبرا مال چھین لیا جاتا ہے اور سود، قمار، رشوت اور تمام بیوع فاسدہ اور معاملات فاسدہ بھی جو ازروئے شرع جائز نہیں اگرچہ فریقین کی رضامندی بھی متحقق ہو جھوٹ بول کر یا جھوٹی قسم کھا کر کوئی مال حاصل کرلینا یا ایسی کمائی جس کو شریعت اسلام نے ممنوع قرار دیا ہے اگرچہ اپنی جان کی محنت ہی سے حاصل کی گئی ہو وہ سب حرام اور باطل ہیں اور قرآن کے الفاظ میں اگرچہ صراحۃ کھانے کی ممانعت مذکور ہے لیکن مراد اس جگہ صرف کھانا ہی نہیں بلکہ مطلقاً استعمال کرنا ہے خواہ کھا پی کر یا پہن کر یا دوسرے طریقہ کے استعمال سے مگر محاورات میں ان سب قسم کے استعمالوں کو کھا لینا ہی بولا جاتا ہے کہ فلاں آدمی فلاں کا مال کھا گیا اگرچہ وہ مال کھانے پینے کے لائق نہ ہو،

(سورۃ البقرۃ،  ج:1، ص:457، ط:مکتبہ معارف القرآن )

فتاوی شامی میں ہے:

"والحاصل أن المذهب عدم التعزیر بأخذ المال...لایجوز لأحد من المسلمین أخذ مال أحد بغیر سبب شرعي."

(باب التعزیر، مطلب في التعزیر بأخذ المال، ج:4، ص:61، ط:سعید)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

سوال:

کیا فرماتے ہیں علمائے دن مفتیان شرع متین مسائل ذیل کے بارے میں کہ زید  اکل حلال کے ذریعہ زندگی گزارنا چاہتا ہے،موصوف میونسپلٹی میں ملازم ہے،اور زید کےذمہ ملازم ہونے کی حیثیت سے دو کام سپرد ہیں ،جن کی تفصیل ذیل میں ہے:

1-میونسپل بورڈ کی چنگی کے ذریعہ وصول کیا گیا محصول کی نگرانی کرنا اور شہر میں باہر سے مال لانے والوں کو محصول ادا کرنے پر مجبور کرنا ،ایسے مال مالکوں سے جو مال بغیرمحصول ادا کیے ہوئے شہر میں آجاتے ہیں،گرفت کرکے ان سے اصل محصول سے پانچ گنا یا بیس گنا تک تاوان وصول کرنا۔

2-شہر کی حدود کے اندر نام مکانات دکانات وغیرہ پر خواہ وہ کرایہ پر ہوں یا اپنے نجی استعمال میں ہوں ،اوسطا سالانہ آمدنی کرایہ کا دس فیصدی ٹیکس وصول کرنا،ادا نہ کرنے کی صورت میں مکان یا دکان کی قرقی کرانا،آیا یہ نوکری شرعی حیثیت سے جائز ہے یا نہیں ؟مدلل ارقام فرمائیں ۔

3-ملازمین قانونی خلاف ورزی کرتے ہوئے پکڑے جائیں ،جیسے مال ملکوں سے چنگی کی شرع کے مطابق پورا محصول وصول نہ کرکے اپنے فائدے کے لیے واجب محصول سے کم رقم لے کر مال مالکوں کو بغیررسید دیے ہوئے  چھوڑ دیتے ہیں ،اس کا علم ہونے پر قانونی کاروائی کیے جانے پر ملازمین معطل یا ملازمت سے برطرف یا ان پر کوئی جرمانہ بھی کیا جاسکتا ہے،اس لیے اگر ان کی کچھ خامیوں کو نظر اندا کردیا جائے ،جب کہ اکثریت ملازمین کی مسلم ہے،تو عند اللہ مواخذہ دار تو نہیں ہوگا؟

جواب:

اگر حکومت کی طرف سے شہر میں آنے والے تاجروں کے مال کی حفاظت کاانتظام ہے کہ وہ اس انتظام کی بدولت اپنے پورے سامان تجارت کو لے کر عافیت کے ساتھ شہر میں پہنچ جاتے ہیں ،اور یہاں کاروبار کرتے ہیں ،مال فروخت کرکے روپیہ لے کر عافیت کے ساتھ پہنچ جاتے ہیں ،ان کا راستہ میں نہ مال ضائع ہوتا ہے نہ روپیہ، تو اس حالت میں چنگی حسب ضابطہ وصول کرنا درست ہے،اس کی ملازمت ،نگرانی بھی درست ہے،لیکن خلاف ورزی کرنے والوں سے مال جرمانہ وصول کرنے کی اجازت نہیں ،مال جرمانہ ابتدائے اسلام میں تھا،پھر منسوخ ہوگیا۔

شہر میں اگر مکان دکانوں کی حاظت کے لیے پہرہ دار مقر ہیں ،جن کی وجہ سے چوری وڈاکہ سے حفاظت رہتی ہے،تو اس حفاظت کے معاوضہ کے طور پر کچھ وصول کرنا یہ بھی درست ہے،اس کی ملازمت بھی درست ہے،لیکن حفاظت کا انتظام نہیں ،راستہ میں یا شہر میں چوری بھی ہوتی ہے،ڈاکہ بھی پڑتا ہے،اور جو نقصان ہوا،اس کا معاوضہ بھی نہیں دیا جاتا۔

بلکہ صورت یہ ہوتی ہےکہ راستہ میں کچھ مال ڈاکوؤں نے چھین لیا،کچھ معمولی باقی بچا اس کو لے کر شہر میں آئے تو چنگی والوں نے وصول کرلیا،پھر شہر میں آکر وہاں ٹیکس ادا کرنا پڑا ،اگر ٹیکس ادا کرنے کو کچھ پاس نہیں تھا،تو مکان کی قرقی کی نوبت آئی یا اس سواری کی قرقی کرلی گئی جس پر مال لائے تھے،تو یہ غریب خالی ہاتھ خسارے ہی خسارے میں رہا،آئندہ کو مال لانے سے روک دیا گیا،بیوی بچے پریشان رہے،ان کے کھانے پینے کا کوئی انتظام نہیں رہا ،یہ خود جیل میں مصیبت بھرتا رہا،ایسی ملازم اعانت جرم ہے،جو شرعا درت نہیں ۔

2-جو صورت ظلم کی ہو،اس سے درگزر کیا جائے،جو محصول شرعا واجب الادا ہو،اس سے درگزر کرنے کا حق نہیں ۔

(باب الاستئجار علی المعاصی، ج:23، ص:405، ط:ادارۃ الفاروق کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502102371

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں