بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ٹیکس وصول کرنے والوں کو تنخواہ کے علاوہ اضافی دینے کا حکم


سوال

پاکستان میں ٹیکس جمع کرنے والے اہلکاروں کو ان کی تنخواہ کے علاوہ جو ریونیو جمع ہوتا ہے اس کا ایک مقررہ فیصد ادا کیا جاتا ہے۔  کیا یہ حلال ہے؟  

جواب

ٹیکس کی شرح منصفانہ ہو بے جا کسی پر ظلم وزیادتی نہ کرتے ہوں، جس کا جتنا ٹیکس بنتا ہے اتنا ہی وصول کرتے ہوں، لالچ میں آ کر کسی پر ظلم نہ کرتے ہوں اور وصول کا طریقہ کار مناسب ہو تو ایسے ٹیکس وصول کنندہ گان کو ادارے کی طرف سے تنخواہ کے علاوہ اگر کچھ طے شدہ دیا جائے تو یہ ان کے لیے لینا جائز ہے۔

اور  جس ٹیکس میں مذکورہ شرائط نہ پائی جائیں، یعنی:   ٹیکس وصول کنندہ گان اضافے کی لالچ میں آ کر ظلم کرتے ہیں، یا مقررہ حد سے یادہ وصول کرتے ہیں، یا ٹیکس وصولی کی شرح منصفانہ نہیں ہے، لوگوں کو بے جا تنگ کر کے وصول کرتے ہیں تو پھر ایسا ٹیکس لینا ہی جائز نہیں ہے،  ایسے ٹیکس لینے والوں کے بارے میں احادیث میں بہت سخت وعید وارد ہوئی ہیں۔

حدیث شریف میں ہے:

"حدثنا قتيبة بن سعيد، قال: حدثنا ابن لهيعة، عن يزيد بن أبي حبيب، عن أبي الخير، قال: عرض مسلمة بن مخلد - وكان أميرا على مصر - على رويفع بن ثابت، أن يوليه العشور، فقال: إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: "إن صاحب المكس  في النار".

(مسند الإمام أحمد بن حنبل، ج: ۲۸، صفحہ: ۲۱۱، رقم الحدیث:  ۱۷۰۰۱، ط:  مؤسسة الرسالة)

وفیہ ایضاً: 

"إن صاحب المكس في النار. "حم طب"عن رويفع بن ثابت".

(كنز العمال في سنن الأقوال والأفعال، ج: ۳، صفحہ: ۴۹۸، رقم الحدیث: ۷۵۹۰، ط:  مؤسسة الرسالة) 

فتح القدیر میں ہے:

"قال شمس الأئمة: هذا كان في ذاك الزمان لأنه إعانة على الجائحة والجهاد ، أما في زماننا فأكثر النوائب تؤخذ ظلما ، ومن تمكن من دفع الظلم عن نفسه فهو خير له ، وإن أراد الإعطاء فليعط من هو عاجز عن دفع الظلم عن نفسه لفقير".

(كتاب الكفالة، فصل في الضمان، ج: ۷، صفحہ: ۲۲۳، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504100559

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں