بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

رشتے پر رضامند کرنے کے لیے تعویذات کا سہارا لینا


سوال

ایک لڑکا ایک لڑکی کو پسند کرتا ہے اور لڑکی سے نکاح کرنا چاہتاہے اور لڑکی بھی اس لڑکے کے ساتھ شادی کرنے پر رضا مند ہے ،لڑکا سرائیکی اور لڑکی پٹھان ہے  لیکن قومیت اور زبان ایک نہ ہونے کی وجہ سے لڑکی کے گھر والے انکار کر رہے ہیں  اور لڑکی بضد ہے اس لڑکے سے شادی کرنے پر اور لاکھ جتن کرنے کے باوجود بھی گھر والے اپنی عزت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ اگر ہم نے آپ کا رشتہ خاندان سے باہر کسی اور زبان والوں میں کر دیا تو ہماری بدنامی ہے ،اس لیے نہیں مان رہے   تو آیا ان مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر گھر والوں کو راضی کرنے کے لیے ان پر تعویذات کا سہارا لیا جائے تاکہ وہ اس رشتے کے لیے مان جائیں !کیا ایسا کرنا درست ہے یا نہیں ؟ 

جواب

عموماً پسند کی شادی میں وقتی جذبات محرک بنتے ہیں، وقت کے ساتھ ساتھ ان جذبات اور پسندیدگی میں کمی آنے لگتی ہے، نتیجۃً ایسی شادیاں ناکام ہوجاتی ہیں اورعلیحدگی کی نوبت آجاتی ہے، جب کہ اس کے مقابلے میں خاندانوں اوررشتوں کی جانچ پرکھ کا تجربہ رکھنے والے والدین اورخاندان کے بزرگوں کے کرائے ہوئے رشتے زیادہ پائیدارثابت ہوتے ہیں  اوربالعموم شریف گھرانوں کا یہی طریقہ کارہے، ایسے رشتوں میں وقتی ناپسندیدگی عموماً  گہری پسند میں بدل جایا کرتی ہے؛ اس لیے مسلمان بچوں اوربچیوں کوچاہیے کہ وہ  اپنے اوپر یہ  بوجھ اٹھانےکے بجائے اپنےبڑوں پراعتماد کریں،  ان کی رضامندی کے بغیر کوئی قدم نہ اٹھائیں۔

باقی  کسی کو رشتے کے لیے راضی کرنے کے لیے ایسا تعویذ یا عمل استعمال کرنا جس سے دوسرا شخص مسخر ہوجائے  اور اس کی عقل ماؤف ہوجائے اور اس کو فیصلہ کی سمجھ نہ رہے، اس طرح تعویذ کرنا جائز نہیں ہے۔ اگر تعویذ شرکیہ کلمات پر مشتمل ہو یا اس میں غیر اللہ سے مدد مانگی گئی ہو تو معاملہ کفر تک پہنچ جاتا ہے۔

البتہ مذکورہ لڑکے کو چاہیے کہ اچھے رشتہ کے  لیے روزانہ دو رکعت نفل ادا کرکے اللہ رب العزت سے  اچھے رشتہ اور خوش بختی کے  لیے دعا کا اہتمام کرے اور ذہن کو اس طرف سے ہٹاکر  یکسو کرلے اور اللہ کے حوالہ کردے ، اس سے ان شاء اللہ کوئی خیر کا راستہ نکل آئے گا۔

   فتاوی شامی میں ہے:

"قال في الخانية: امرأة تصنع آيات التعويذ ليحبها زوجها بعد ما كان يبغضها ذكر في الجامع الصغير: أن ذلك حرام ولا يحل اهـ وذكر ابن وهبان في توجيهه: أنه ضرب من السحر والسحر حرام اهـ ط ومقتضاة أنه ليس مجرد كتابة آيات، بل فيه شيء زائد قال الزيلعي: وعن ابن مسعود - رضي الله تعالى عنه - أنه قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «إن الرقى والتمائم والتولة شرك» رواه أبو داود وابن ماجه والتولة أي بوزن عنبة ضرب من السحر قال الأصمعي: هو تحبيب المرأة إلى زوجها، وعن «عروة بن مالك - رضي الله عنه - أنه قال: كنا في الجاهلية نرقي فقلنا: يا رسول الله كيف ترى في ذلك؟ فقال اعرضوا علي رقاكم لا بأس بالرقى ما لم يكن فيه شرك» رواه مسلم وأبو داود اهـ وتمامه فيه وقدمنا شيئا من ذلك قبيل فصل النظر وبه اندفع تنظير ابن الشحنة في كون التعويذ ضربا من السحر".

(کتاب الحظر و الإباحة،فصل في البيع، ص:429، ج:6، ط: سعید)

امداد الفتاویٰ میں ہے:

"سوال:بیوہ عورت کو کوئی عمل پڑھ کر نکاح کی خواہش کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ کوئی عمل قرآن سے پڑھ کر بیوہ عورت کو کھلانا واسطے نکاح کے جائز ہے یا نہیں ؟

الجواب: عمل باعتبار اثر کے دو قسم کے ہیں ۔ ایک قسم یہ کہ جس پر عمل کیا جاوے وہ مسخر اور مغلوب المحبّت ومغلوب العقل ہو جاوے ایسا عمل اس مقصود کے لئے جائز نہیں جو شرعاً واجب نہ ہو، جیسے نکاح کرنا کسی معیّن مرد سے کہ شرعاً واجب نہیں ، اس کے لئے ایسا عمل جائز نہیں۔

دوسری قسم یہ کہ صرف معمول کو اس مقصود کی طرف توجہ بلا مغلوبیت ہوجاوے، پھر بصیرت کے ساتھ اپنے لئے مصلحت تجویز کرلے، ایسا عمل ایسے مقصود کے لئے جائز ہے اس حکم میں قرآن وغیر قرآن مشترک ہیں ۔"

(کتاب الحظر والاباحۃ، تعویذات و اعمال،ج:4،ص:89،  ط: مکتبہ دار العلوم کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403101816

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں