بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تعویذ کے ذریعہ پیسہ کمانا


سوال

تعویذ کے ذریعہ پیسہ کمانا کیسا ہے؟

جواب

دیگر  علاج ومعالجہ کی طرح  تعویذات بھی علاج کی ایک قسم ہے،  تعویذات اور عملیات کے ذریعے علاج کرنا اور اس پر معقول معاوضہ لینا چند شرائط کے ساتھ جائز ہے:

(۱)  ان کا معنی  ومفہوم معلوم ہو،  (۲) ان میں  کوئی شرکیہ کلمہ نہ ہو یعنی غیراللہ سے مدد طلب نہ کی ہو (۳)  ان کے مؤثر بالذات ہونے   کا اعتقاد نہ ہو  (۴) کسی بھی غیر شرعی امر کا ارتکاب نہ کرنا پڑے، مثلاً: اجنبیہ عورتوں سے اختلاط و بے پردگی وغیرہ۔

لہذا  ایسے تعویذ اور عملیات جو آیاتِ قرآنیہ ، ادعیہ ماثورہ یا کلمات صحیحہ پر مشتمل ہوں  ان کو لکھنا،  استعمال کرنا اور ان سے علاج کرنا شرعاً درست ہے،  اور اس پر معقول معاوضہ  لینا بھی جائز ہے، اور جن تعویذوں میں کلماتِ  شرکیہ یا  کلماتِ مجہولہ یا نامعلوم قسم کے منتر  لکھے جائیں یا ا نہیں مؤثرِ حقیقی  سمجھا جائے تو ان کا استعمال  اور اس پر اجرت لینا  شرعاً جائز نہیں ہے۔

صحیح البخاری میں ہے:

"عن ‌أبي سعيد الخدري رضي الله عنه: «أن ناسا من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم أتوا على حي من أحياء العرب، فلم يقروهم، فبينما هم كذلك إذ لدغ سيد أولئك، فقالوا: هل معكم من دواء أو راق، فقالوا: إنكم لم تقرونا، ولا نفعل حتى تجعلوا لنا جعلا، فجعلوا لهم قطيعا من الشاء، فجعل يقرأ بأم القرآن ويجمع بزاقه ويتفل، فبرأ، فأتوا بالشاء، فقالوا: لا نأخذه حتى نسأل النبي صلى الله عليه وسلم، فسألوه فضحك وقال: وما أدراك أنها رقية؟ خذوها واضربوا لي بسهم."

(کتاب الطب ، باب الرقی بفاتحة الکتاب جلد ۷ ص: ۱۳۱ ط: السلطانیة بالمطبعة الکبري الامیریة ببولاق مصر)

فتح الباری میں ہے:

"وقد أجمع العلماء ‌على ‌جواز ‌الرقى عند اجتماع ثلاثة شروط أن يكون بكلام الله تعالى أو بأسمائه وصفاته وباللسان العربي أو بما يعرف معناه من غيره وأن يعتقد أن الرقية لا تؤثر بذاتها بل بذات الله تعالى واختلفوا في كونها شرطا والراجح أنه لا بد من اعتبار الشروط المذكورة."

(کتاب الطب ، باب الرقي جلد ۱۰ ص: ۱۹۵ ط: دارالمعرفة)

بذل المجہود میں ہے:

"وفي الحديث أعظم دليل على أن يجوز الأجرة على الرقي والطب، كما قاله الشافعي ومالك وأبو حنيفة وأحمد."

(کتاب الطب ، باب کیف الرقی جلد ۱۱ ص: ۶۲۷ ط: مرکز الشیخ ابی الحسن الندوی للبحوث و الدراسات الاسلامیة ، الهند)

فتاوی شامی میں ہے:

"لأن المتقدمين المانعين الاستئجار مطلقاجوزوا الرقية بالأجرة ولو بالقرآن كما ذكره الطحاوي؛ لأنها ليست عبادة محضة بل من التداوي."

(کتاب الاجارۃ ، باب الاجارۃ الفاسدۃ جلد ۶ ص: ۵۷ ط: دارالفکر)

تنقیح الفتاوی الحامدیہ میں ہے:

"وأما حديث «الرهط الذين رقوا لديغا بالفاتحة وأخذوا جعلا فسألوا النبي - صلى الله عليه وسلم - فقال أحق ما أخذتم عليه أجرا كتاب الله» فمعناه إذا رقيتم به كما نقله العيني في شرح البخاري عن بعض أصحابنا وقال إن الرقية بالقرآن ليست بقربة أي؛ لأن المقصود بها الاستشفاء دون الثواب."

(کتاب الاجارۃ جلد ۲ ص: ۱۲۸ ط: دارالمعرفة)

فقط و اللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144401100962

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں